• Sangar English
  • رابطہ
  • آر کائیو
    • خبریں
    • مقبوضہ بلوچستان
    • انٹرنیشنل
    • جنوبی ایشیاء
    • کھیل و فن
    • سائنس اور ٹیکنالوجی
    • اداریہ
    • مضامین
    • تجزیہ
    • رپورٹس
    • انٹرویوز
    • بلوچی مضامین
    • براہوئی مضامین
    • شعر و شاعری
  • تصاویر
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیوز
    • آڈیوز
  • کتابیں
  • سنگر میگزین
  • انٹرویوز
  • مضامین/ کالمز
  • اداریہ
  • پہلا صفحہ

تازہ ترین خبریں

انسانی حقوق کے ادارے بلوچ نسل

Feb 21, 2019, 9:40 pm

کیچ : ہیرونک سے فورسز ہاتھوں

Feb 21, 2019, 12:52 pm

بلوچستان میں بارشوں نے تباہی

Feb 21, 2019, 12:52 pm

بنگلہ دیش: کیمیائی گودام میں

Feb 21, 2019, 12:49 pm

شام میں داعش کے آخری گڑھ سے شہریوں

Feb 21, 2019, 12:47 pm

بھارت و سعودیہ مابین دہشت گردی

Feb 21, 2019, 12:45 pm
More...

فکرشہیدڈاکٹرمنان زندہ رہے گا .... محمد یوسف بلوچ

Jan 29, 2019, 10:15 pm


انسانی تاریخ ، اس تاریخ میں ظلم و جبر کے خاتمے کے لیے انسانی تخلیقات (نظریات) اور ان نظریات کی رو سے جنم لینے والے عظیم انسان اور ان عظیم انسانوں کے ہاتھوں رونماء ہونے والے عظیم واقعات جو قوموں کی تقدیر بدلنے کا موجب بنتے ہیں۔جہاں انسان پستی سے بلندی کی جانب پرواز کرنے لگتا ہے، جہاں انسان دنیا سے برابری کا نہ صرف دعویٰ کرتا ہے بلکہ عملی طور پر ثابت کرکے دکھاتا ہے، جہاں انسان علم و تخلیق سے آنے والے انسانوں کے لیے روشنی کے در واہ کرتا ہے۔

یہ تخلیقات، دنیا سے یہ ہمسری ، کسی معاشرے میںیہ سب اس وقت ممکن ہوتا ہے جب انسانوں کے کسی سماج میں کسی عظیم انسان کا جنم ہو۔

دنیا میں عظیم انسانوں کا عمل اورکردارجو اکثر اوقات کسی پورے سماج کی تقدیر بدلنے کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ، ایسے انسانوں کا دنیا سے جانا کسی عظیم سانحے اور المیے سے کم نہیں ۔اور ان بدنصیب قوموں کے لیے تو باعث موت ثابت ہوتی ہے جو عظیم انسانوں کے جانے کے بعد ان کی دی ہوئی تعلیمات کے منکر ہوں۔جیسے تامل قوم جنہیں پربھاکران نے ایک الگ شناخت دی، جن میں پر بھاکران نے جذبہ آزدی پروان چڑھایا، وہ قوم جسے پربھاکران نے جینے کا ہنر سکھایا۔۔۔لیکن تاریخ کا المیہ کہ اسی قوم نے اس عظیم انسان کی دی ہوئی سوچ کو پسِ پشت ڈال کر غلامی کا طق قبول کرلیا۔تاملوں کے برعکس ویتنامیوں نے اپنے عظیم لیڈر ہوچی من کے جانے کے بعد بھی اسی کے رنگ میں رنگ گئے جس کی وجہ سے آج وہ دنیا کے عظیم قوموں میں شمار ہوتے ہیں ۔الغرض تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں کسی سماج کو نجات تو کوئی تاریک راہوں کا راہی بن گیا۔

جب ہم بلوچ سماج کو دیکھتے ہیں تو اس میں ہمیں عظیم شخصیات کی ایک لمبی فہرست نظر آتی ہے جنہوں نے ایسے عظیم کارنامے سرانجام دیے جن پہ آج پوری قوم نہ صرف نازاں ہے بلکہ ایک بڑی اکثریت انہی راہوں میں زندگی کی تلاش میں اپنی ذات کو پسِ پشت ڈال کر محو سفرہیں۔انہی عظیم ہستیوں میں سے ایک نام شہید ڈاکٹرمنان بلوچ کا ہے۔جس نے نظریاتی تعلیمات کی روشنی میں قوم کو ایسی راہ دکھادی جس پہ عمل کرکے یہ قوم عرش تک سکتی ہے۔

شہیدڈاکٹر منان بلوچ سے کب میں واقف ہوا ،تاریخ تو مجھے یاد نہیں لیکن جب میں پہلی مرتبہ اس عظیم ہستی سے ملا تو ایسا لگا کہ برسوں سے میں اس شخص کو جانتا ہوں ، جو اپنے سینے میں دردِ بلوچ ، جہد بلوچ، قومی آزادی کی امنگ نہ صرف لیے پھرتا تھا بلکہ عملی اقدامات سے اس مقصد کو حاصل کرنے کا قائل تھا جس کے لیے عہدِ قدیم سے آج تک بلوچ لہو بہاتے چلے آرہے ہیں۔ وہ عملی جدوجہد کا نہ صرف خود قائل تھا بلکہ اس میں عملی انسان کی شبیہ ہر کوئی دیکھ سکتا تھا۔شہید ڈاکٹر منان بلوچ کو اس کے عملی کردار نے ہی عظیم انسانوں یعنی انقلابیوں کی فہرست میں مقام عطا کیا۔

آج سے تین سال قبل بلوچ قوم کو ایک عظیم سانحے سے گزرنا پڑا، ایک ایسا سانحہ جو میری زندگی میں شہید غلام محمد بلوچ کے بعد دوسرا بڑا درد ناک واقعہ تھا، ایک ایسا واقعہ جس نے میری زندگی ہی نہیں بلکہ پورے سماج کو اندوہناک کرب میں مبتلا کردیا، ایک ایسا واقعہ جس کی وجہ سے بلوچ قوم ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر محکوم بھی ایک عظیم رہنماء سے محروم ہوگئے۔۔۔ہاں مستونگ کے کلی دتو میں، ۳۱ جنوری ۲۰۱۶ء کو پیش آنے والا یہ واقعہ جس میں عظیم بلوچ رہنماء ، بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کا سیکرٹری جنرل دیگر چار(۴) ساتھیوں شہید بابونوروز، شہیداشرف جان، شہید ساجد بلوچ اور شہید حنیف جان کے ساتھ جسمانی طور پر ہم سے جدا ہو گئے۔

ہاں موت برحق ہے اسے آنا ہی ہے۔۔۔لیکن دنیا میں بہت کم انسان ایسے ہونگے جنہیں موت کے بعد بھی زندگی ملے، شہید ڈاکٹر منان بلوچ انہی عظیم ہستیوں میں سے ایک ہے جو رہتی دنیا تک اپنی آدرشوں ، اپنے عمل اور کردار کی بدولت دنیا کے مظلوم اور محکوم اقوام کے لیے خضرِ وقت ثابت ہوگا۔جس کی تعلیمات کی بدولت انسان انقلابی پوشاک زیب تن کرسکتا ہے، جس کے کردار کو اپناتے ہوئے انسان دیگر محکوم اور مظلوموں کی داد رسی کے قابل ہوسکتا ہے، ایسا انسان جس کے کردار، عمل اور نظریات کا مطالعہ اور ان پہ عمل کسی بھی انسان کو انسانیت کے اسی فہرست میں جگہ بنانے کے قابل بنا سکتا ہے جس کا تاج شہید ڈاکٹر منان بلوچ کے سر سج گیا۔

شہید ڈاکٹر منان بلوچ جس دورے پہ تھا اس میں بھی ان کا ہمسفر رہا ۔اس سفر کے لیے شہید ڈاکٹر منان بلوچ نے پہلے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کیوں کہ وہ ضرورت وقت کے مطابق چلنے کا ہنر جانتا تھا انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ رخشان، سراوان، جہالاوان اور بلوچستان کے دیگر علاقے جہاں قوم اس قدر متحرک دکھائی نہیں دے رہا جن کا حالات تقاضاکررہے ہیں ، انہیں اس بات کی مکمل جانکاری تھی کہ اگر ان علاقوں میں عوامی سطح پہ کام کیا جائے تو ان علاقوں سے جو گزشتہ ادوار میں تحریک کے مراکز رہے ہیں پھر سے وہاں کے عوام میں جذبہ حریت سرایت کرجائیگا اور جس دن یہ عمل مکمل ہوا اسی دن بلوچ قوم کو اس کی منزل کی بشارت مل جائیگی۔

خاران پہنچ کر شہید ڈاکٹر منان صاحب اور دیگر دوستوں کے ساتھ چند ایک پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھے چند دیگر ساتھی کے ساتھیوں کے ساتھ مستونگ میں پارٹی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لیے روانہ کیا۔ اس سفر میں شہید اشرف جان بلوچ بھی ہمراہ تھا ، جس کے توسط سے ہم نے مستونگ ،اس کے مضافات اور اسپلنجی کے علاقوں کا دورہ کیا۔

اس دوران جب ہم مستونگ میں تھے تو خاران میں شہید ڈاکٹر منان بلوچ پہ ریاستی فورسسز نے دو حملے کیے ایک حملے میں تو شہید قابض فوجیوں کے نرغے میں آچکا تھا لیکن معجزانہ طور پہ شہید ڈاکٹر منان بلوچ اور دیگر ساتھی محفوظ رہیں۔

خاران ااور نوشکی کا دورہ مکمل کرنے کے بعد اکتوبر۲۰۱۵ء میں شہید ڈاکٹر منان بلوچ بھی مستونگ پہنچ گئے۔ جہاں کچھ عرصہ میں شہید کا ہمسفر رہا اور کچھ عرصے بعد میں دوبارہ مکران کی جانب چل پڑا۔

کو ن جانتا تھا کہ یہ اس عظیم ہستی کا آخری تنظیمی دورہ ہوگا۔کس کو یہ علم تھا کہ شہید دوبارہ مشکے، مکران، آواران، خاران، الغرض بلوچستان کے کسی علاقے کو اپنے دیدار سے نہیں نوازے گا، کون جانتا تھا کہ شہید جس سفر پہ نکلا ہے وہ اسے ہمارا نہیں بلکہ شہید غلام محمد بلوچ، شہید نواب اکبر خان ، شہید حمید شاہین اور دیگر شہیداء کا ہمسفر بنائے گا۔

آج تین سال کا عرصہ گزرچکا ہے لوگ اسی شدت کے ساتھ شہید ڈاکٹر منان بلوچ کمی محسوس کررہے ہیں میرا ایمان ہے کہ تین صدیاں بعد بھی بلوچ قوم کا یہ جذبہ اسی انداز میں برقرار رہیگا اور یہ فکر جو شہید ڈاکٹر منان بلوچ نے اپنی تعلیمات اور نظریاتی وابستگی سے ہمیں دی ہیں ، ان تعلیمات ااور تخلیقات سے نئے ستاروں کا جنم ہوگا جو قوم کی امنگوں کی پاسبانی کرتے ہوئے کاروانِ بلوچ کو منزل مقصود تک پہنچانے کے اسباب مہیا کریں گے۔

***

© 2013 Daily Sangar. All Rights Reserved.
Email: [email protected], [email protected]