• Sangar English
  • رابطہ
  • آر کائیو
    • خبریں
    • مقبوضہ بلوچستان
    • انٹرنیشنل
    • جنوبی ایشیاء
    • کھیل و فن
    • سائنس اور ٹیکنالوجی
    • اداریہ
    • مضامین
    • تجزیہ
    • رپورٹس
    • انٹرویوز
    • بلوچی مضامین
    • براہوئی مضامین
    • شعر و شاعری
  • تصاویر
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیوز
    • آڈیوز
  • کتابیں
  • سنگر میگزین
  • انٹرویوز
  • مضامین/ کالمز
  • اداریہ
  • پہلا صفحہ

تازہ ترین خبریں

اختر مینگل کا راجن پور وڈی جی

Dec 16, 2019, 11:30 am

واشنگٹن و کابل مابین افغانستان

Dec 16, 2019, 11:28 am

چین نے امریکی مصنوعات پر ٹیرف

Dec 16, 2019, 11:25 am

آب و ہوا کی تبدیلی حوالے عالمی

Dec 16, 2019, 11:24 am

ترکی نے لیبیا کی قومی وفاق حکومت

Dec 16, 2019, 11:21 am

گوگل ارتھ اب زمین کے 98 فیصد رقبے

Dec 16, 2019, 11:20 am
More...

پی ٹی ایم کارکن ارمان لونی کی تدفین اْنکے آبائی قبرستان میں کر دی گئی

Feb 4, 2019, 12:10 pm

کوئٹہ (سنگر نیوز)بلوچستان میں پولیس کے تشدد سے ہلاک ہونے والے پشتون تحفظ تحریک کے رکن ارمان لونی کی تدفین قلعہ سیف اللہ میں اْن کے آبائی قبرستان میں کر دی گئی۔ اْن کی نماز جنازہ میں پی ٹیم ایم کے سربراہ منظور پشتین اور تحریک کے مرکزی رہنماؤں محسن داوڑ اور علی وزیر نے بھی شرکت کی۔ ان کے علاوہ پختونخوا عوامی پارٹی کے رہنما نواب ایاز جوگیزئی اپنے سیکڑوں کارکنوں کے ہمراہ جنازے میں شریک ہوئے۔

پی ٹی ایم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ارمان لونی ہفتے کی رات پولیس کے مبینہ تشدد سے ہلاک ہو گئے تھے جبکہ پولیس کے مطابق اْن کی ہلاکت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔

بلوچستان کی حکومت نے منظور پشتین سمیت پشتون تحفظ موومنٹ کے دیگر رہنماؤں کی کوئٹہ آمد اور کسی جلسے میں شرکت کرنے پر پہلے ہی پابندی عائد کر رکھی ہے۔

اطلاعات کے مطابق منظور پشتین، محسن داوڑ اور دیگر رہنماؤں کو شیرانی دانہ سر چیک پوسٹ پر فرنٹیئر کور نے بلوچستان میں داخل ہونے سے روک لیا تھا لیکن وہ قلعہ سیف اللہ پہنچ گئے۔

انتظامیہ نے کوئٹہ میں بھی دفعہ 144 کے تحت چار یا چار سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی تھی۔

قبل اذیں پی ٹی ایم رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی انتظامیہ نے اْن کے داخلہ پر پابندی کے حوالے سے ایک نیا آرڈر جاری کیا ہے۔

اس کے ساتھ ایک اور اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ ژوب لورالائی ڈویژن میں پندرہ روز تک کسی بھی قسم کا آتشیں اسلحے کی نمائش یا استعمال، جلسے جلوس، دھرنوں، چار یا چار سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے واقعہ کا نوٹس لیا ہے اور لورالائی پولیس حکام سے واقعہ کی رپورٹ فوری طور پر طلب کر لی ہے۔

کٹھ پتلی وزیر داخلہ بلوچستان ضیا لانگو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت واقعے کی تحقیقات کر کے حقائق کو منظرِ عام پر لائے گی اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔

لورالائی سٹیزن ایکشن کمیٹی کے رْکن اخلاص خان نے میڈیا کو بتایا کہ لورالائی میں پولیس کمپلیکس پر حملے اور اس میں مقامی نوجوانوں کی ہلاکتوں کے خلاف پشتون تحفظ موؤمنٹ کے کارکنوں نے گزشتہ تین دنوں سے پرلیس کلب لورالائی کے سامنے دھرنا دیا ہوا تھا۔

ہفتے کی رات وہاں پولیس کے اعلیٰ حکام دھرنے میں آئے اور انھوں نے دھرنا ختم کرنے کا کہا۔ جس پر پی ٹی ایم کے مقامی رہنماؤں نے پولیس کو بتایا کہ اتوار کو لورالائی کی تمام سیاسی جماعتیں حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر غور کرنے کے لیے اجلاس کر رہی ہیں جس کے بعد یہ دھرنا ختم کر دیا جائے گا۔

اس دوران غالباً پولیس حکام اور پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے درمیان تکرار ہوئی اور بقول پی ٹی ایم کارکنوں کے، پولیس اہلکاروں نے ابراہیم خان ارمان لونی کو بندوق کا بٹ مارا جس سے وہ زخمی ہوکر زمین پر گر پڑے۔ جب انھیں اسپتال پہنچایا گیا تو ڈاکٹرز نے اْن کی موت کی تصدیق کی۔

لورالائی پولیس کے انسپکٹر ناصر شاہ نے وی او اے کو بتایا کہ ارمان کو گرفتار نہیں کیا گیا نہ ہی تھانے لایا گیا اور تشدد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پولیس کے مطابق اْن کے موت کی وجہ دل کا دورہ ہے۔ اْنہیں کارڈیئک وارڈ لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے موت کی تصدیق کر دی۔

لورالائی اسپتال کے میڈیکل سْپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر فہیم نے وی او اے کو بتایا کہ ارمان لونی اسپتال پہنچانے سے پہلے ہی دم توڑ گئے تھے اور ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں نے اْنہیں چیک کیا تھا۔

ڈاکٹروں کے مطابق ارمان لونی کے جسم یا سر پر کسی قسم کے تشدد کی نشاندہی نہیں کی۔

واقعے کے خلاف لورالائی میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور پشتون تحفظ مو ؤمنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق پیر کو پہلے مرحلے میں بلوچستان کے پشتون اکثریتی اضلاع میں احتجاجی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جائے گی۔

پشتون تحفظ موؤمنٹ کے مرکزی کمیٹی کے رکن ارمان لونی کا اصل نام ابراہیم خان تھا اور اْن کا تعلق لونی قیبلے سے تھا۔ پشتو شاعری سے انھیں لگاؤ تھا اور شاعری میں اْن کا تخلص ارمان تھا۔ وہ اپنے آپ کو ارمان لونی کہلوانا پسند کرتے تھے۔

وہ پشتون تحفظ موؤمنٹ کی تمام سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے تھے۔ جس رات اْن کی موت ہوئی اْس سے چند گھنٹے قبل کراچی میں پی ٹی ایم کی ایک سرگرمی میں شرکت کے بعد لورالائی پہنچے تھے جس کا اظہار انہوں نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے ایک بیان میں کیا ہے۔

اْن کی بہن وڑانگہ لونی بھی پی ٹی ایم میں کافی سرگرم ہیں اور مختلف مقامات پر اْن کے بھائی بھی اپنی چھوٹی بہن کی تقریر سْننے والوں میں شامل ہوتے تھے۔ اْن کا تعلق بلوچستان کے ضلع سنجاوی سے تھا۔ وہ پشتو ادب سے کافی لگاؤ رکھتے تھے اور ڈگری کالج کوئٹہ میں پشتو کے لیکچرار تھے۔ انہوں نے دو تحقیقی مقالے بھی تحریر کئے تھے۔

ارمان لونی کا قتل ایسے موقع پر ہوا ہے جب پشتون تحفظ موؤمنٹ کے قیام کو ایک سال مکمل ہوا ہے۔اگر اْن کے قتل کی تصدیق ہو جاتی ہے تو وہ تحریک کے پہلے مقتول رہنما قرار پائیں گے۔

اْن کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ارمان لونی نے اْنھیں بتایا تھا کہ اْنہیں نا معلوم فون نمبر سے پی ٹی ایم سے دور رہنے کا کہا جا رہا ہے بصورت دیگر انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں ملی تھیں لیکن وہ ان کی پرواہ نہیں کر تے تھے۔

© 2013 Daily Sangar. All Rights Reserved.
Email: [email protected], [email protected]