• Sangar English
  • رابطہ
  • آر کائیو
    • خبریں
    • مقبوضہ بلوچستان
    • انٹرنیشنل
    • جنوبی ایشیاء
    • کھیل و فن
    • سائنس اور ٹیکنالوجی
    • اداریہ
    • مضامین
    • تجزیہ
    • رپورٹس
    • انٹرویوز
    • بلوچی مضامین
    • براہوئی مضامین
    • شعر و شاعری
  • تصاویر
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیوز
    • آڈیوز
  • کتابیں
  • سنگر میگزین
  • انٹرویوز
  • مضامین/ کالمز
  • اداریہ
  • پہلا صفحہ

تازہ ترین خبریں

انسانی حقوق کے ادارے بلوچ نسل

Feb 21, 2019, 9:40 pm

کیچ : ہیرونک سے فورسز ہاتھوں

Feb 21, 2019, 12:52 pm

بلوچستان میں بارشوں نے تباہی

Feb 21, 2019, 12:52 pm

بنگلہ دیش: کیمیائی گودام میں

Feb 21, 2019, 12:49 pm

شام میں داعش کے آخری گڑھ سے شہریوں

Feb 21, 2019, 12:47 pm

بھارت و سعودیہ مابین دہشت گردی

Feb 21, 2019, 12:45 pm
More...

    ایک بیٹی کی اپنی باپ سے رشتہ۔۔۔۔۔مختار بلوچ          

Feb 10, 2019, 4:30 pm

    جب بھی مصنوعی ریاست پاکستان نے بلوچ سرزمین بلوچستان پر قبضہ کیا اسی ایام سے لیکر آج تک بلوچ قوم کے بہادر فرزندوں نے اپنی سرزمیں کو پاکستان کی قبضہ سے چھٹکارہ پانے کے لئے کمر بستہ ہوگئے،ہر محاز پر(چاہیے سیاسی ہو یا عسکری) پاکستانی قبضہ گیریت کو کھلم کھلا چیلنج کر کے اپنے سرزمین کی آزادی کے لئے حق کی راہ پر شہادتِ مرگ کی فلسفہ پر کاربند ہوگئے اور تاریخ میں اپنے نام سُنہرے حروف میں لکھ کر گئے اوراسی ہی فلسفہ  شہادت مرگ پر قائم ہیں۔ لیکن ہر وقت قبضہ گیر ریاست نے بلوچ قوم کی اپنی سرزمین کیلئے خالص جدوجہد کو ختم کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے گئے بلوچ  قوم کے سیاسی لیڈرون کو اٹھا کر غائب کرنا پھر لاشین پھنکنا اجتماعی قبریں نکالنا  اور بلوچ قوم کے ہر باشعور  اعلی مکاتب فکر کے لوگوں   پروفیسروں ٹیچروں ڈاکٹروں طالب علموں کو بے دردی سے اٹھا کر یا فائرنگ کر کے شہید کرنا ہر قسم کی جرائم سے اجتناب نہ کرنا ریاست کا معمول بن گیا۔کبھی قبائلی میر و سرداروں کبھی مزہب کبھی دوسرے ممالک کے ایجنٹ اور پراکسی وار کرار دیکر جنگ کی رخ کو موڑنے کے لئے ہر قسم کوشش کی لیکن ناکام ہوگئے۔لیکن ریاست اس مسلمہ حقیقت سے ناواقف ہے کہ قومی جدوجہد کبھی بھی پُرتشدد و ظلم و ستم سے نہ ختم ہوا ہے اور نہ بھی ختم ہوگا ریاست کی جانب سے جتنے بھی تشدد کو بروئیکار لائے گا قوموں   میں   اتنے ہی قومی جزبہ  اُبھریں گا اور اپنے قوم کے لئے ہر قسم کی قربانی کو دینے کے لئے تیار ہونگے۔ آج پاکستان کے یزیدی فوج بلوچ قوم سمیت سندھیون پشتونون پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے ہوئے عالمی انسانی حقوق کے پامالیوں سمیت قوموں کی نسل کشی کر رئے ہیں لوگوں کو اغواہ کر کے سالہا سال گمشدہ کیا ہوا ہے صرف بلوچستان میں اندازے کے مطابق 45000 ہزار سے زاہد بلوچ فرزند غائب ہیں ان میں خواتین بچون سمیت بوڑھے بھی شامل ہیں ان سب کی اغواہ کرنے میں قابض آرمی سمیت پاکستانی خفیہ انٹیلیجنس ایجنسی براہ راست ملوث ہیں لیکن بلوچستان میں سر عام پاکستان کے  اتنے عظیم جرائم میں ملوس ہونا اور انسانیت کے ڈھنڈورا پیٹنے والے انسانی حقوق کمیشن کے ادارون کی خاموشی اور پاکستان کو انصاف کے کٹھیرے میں نہ لانے پہ ان عالمی انسانی حقوق کے ادارون کے مون پر طمانچہ کے مترادف ہے۔

لیکن بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے ماما قدیر اور نصر اللہ بلوچ کی قیادت میں ایک دہائی سے زیادہ احتجاجی مظاہرہ کوئٹہ سے کراچی کراچی سے پیدل اسلام آباد ایک تاریخی لانگ مارچ اور کبھی کراچی پریس کلب میں کبھی اسلام آباد اور کبھی کوئٹہ پریس کلب میں مسلسل بھوک ہڑتالی کیمپ لگا کر احتجاج کرنا اتنی بڑی جدوجہد کے باوجود بلوچستان میں لاپتہ افراد کی مسلہ میں اچھے پیش رفت نہیں دیکھا گیا اور دوسری جانب اور لوگون کو اٹھا کر غائب کر رئے ہیں اور جو بھی ان مسلہ کو اٹھانے کی کوشش کرے گا اسے بھی ریاست کی جانب چُپ کرانے کے لئے ڈرانے دھمکانے سمیت مار بھی ڈالے گا۔ریاست کی جانب سے جان بوچھ کر ایک ایسا  خوف کا ماحول بنا دیا گیا کہ لاپتہ افراد کی فیملی کی جانب سے کوئی بھی اپنے لاپتہ باپ بھائی  بہن اور والدہ کے لئے آواز نہ اٹھائے اگر کسی نے آواز اٹھائی تو وہ بھی لاپتہ ہوگا۔

لیکن کچھ ایسے پیار اور خون کے رشتے بھی ہوتے ہیں جو اس خوف کے فضا کی ماحول کو توڑ کر میدان میں اترتے ہیں اگر ھم دیکھیں اس رشتے کے سامنے  فرعون اور نمرود کے زمانے کی ظلم و ستم ہی دم توڑتے کیونکہ یہ رشتہ ایک بیٹی اور باپ کی ہے یہ رشتہ ننھی سی پری ماہ رنگ بلوچ کی اپنے پاپا نصیر بلوچ کی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ بھی سمی و مہلب بلوچ کی طرح گزشتہ دو سالوں سے اپنے پاپا نصیر بلوچ کی بازیابی کی انتظار میں ہیں۔ماہ رنگ بلوچ کی والد بی ایس او آزاد کے سابقہ سنٹرل کمیٹی کے ممبر نصیر بلوچ ایک اسٹوڈنٹس ہے کو 15 نومبر 2017 کو کراچی سے بی ایس او آزاد کے سابقہ سیکریٹری جنرل ثناہ بلوچ بی ایس او آزاد کے سابقہ سنٹرل کمیٹی کے ممبر حسام بلوچ اور بی این ایم کے ممبر رفیق کے ہمراہ پاکستانی رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے ماہ نگ اور ماہ رنگ بلوچ اپنی ماں زبیدہ بلوچ کے آنکھوں کے سامنے چاروں کو شدید تشدد کے بعد اغواہ کر کے اپنے ساتھ لے گئے ماہ رنگ اور ماہ رنگ کی ماں زبیدہ بلوچ اس واقعہ کی چشم دید گواہ ہیں لیکن حسام بلوچ کو کچھ وقت بعد شدید تشدد کے بعد چھوڑ دیا گیا ابھی تک نصیر بلوچ ثناہ بلوچ اور رفیق بلوچ تاحال لاپتہ ہیں۔ یہ وقت تھی کہ ماہ رنگ کی اسکول جانے کا اور بعدگھر میں اپنی ہم عمر سہیلیوں   کے ساتھ گُھڑیوں سے کھیلنے کی لیکن اپنی باپ سے رشتہ و محبت نے آٹھ سالہ مہرنگ کو  اپنی بچپنیت کے سب خوائشوں کو قربان کرنے کیلئے مجبور کر دیا گیا ماہ رنگ بلوچ  اپنی باپ کی ڈھونڈے میں نکل گئی ماہ رنگ بلوچ اپنے پاپا کی ساتھیوں سمیت بازیابی کے لئے گزشتہ 3 مہینے سے اس سردی میں یخ بستہ وادی شال میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی کیمپ میں اپنے چھوٹے سے بھائی سنجر اور اپنی والدہ زبیدہ بلوچ کی ہمراہ میں سیما زرینہ ماما قدیر و دیگر لاپتہ افراد کی فیملی کے ساتھ اپنی منتظر نما آنکھوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے کہ کب دوبارہ لوٹ کے آجائے ان منتظر آنکھوں کے نور۔ بڑی شدت سے انتظار ہے ان منتظر آنکھوں کو اپنے پاپا کی محبت بھری باتوں کا ماہرنگ نے کم عمری کو بھی اپنے منزل ِمقصود کے آگے میں رکاوٹ  ڈالنے نہ دے دیا اور ظالم وقت نے آٹھ سال کی عمر میں ننھی سی مہرنگ بلوچ کو ایک مان کی رول ادا کرنیپر مجبور کر دیا ہر روز ماہ رنگ بلوچ بھوک ہڑتالی کیمپ میں   اپنے چھوٹے سے بھائی سنجر بلوچ کو اپنی گُود میں تسلیاں دے کر سلاتے ہیں کہ کل ضرور ہمارے پاپا نصیر بلوچ آئے گا ہر انتظار کی گُزرتے دن ماہ رنگ بلوچ کے لئے قیامت سے کم نہیں لیکن ماہ رنگ بلوچ کی حوصلہ اب بھی کوہ البرز کی طرح بلند ہیں۔
 

© 2013 Daily Sangar. All Rights Reserved.
Email: [email protected], [email protected]