• Sangar English
  • رابطہ
  • آر کائیو
    • خبریں
    • مقبوضہ بلوچستان
    • انٹرنیشنل
    • جنوبی ایشیاء
    • کھیل و فن
    • سائنس اور ٹیکنالوجی
    • اداریہ
    • مضامین
    • تجزیہ
    • رپورٹس
    • انٹرویوز
    • بلوچی مضامین
    • براہوئی مضامین
    • شعر و شاعری
  • تصاویر
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیوز
    • آڈیوز
  • کتابیں
  • سنگر میگزین
  • انٹرویوز
  • مضامین/ کالمز
  • اداریہ
  • پہلا صفحہ

تازہ ترین خبریں

وی بی ایم پی و بی ایچ آراو کا

Dec 8, 2019, 8:51 pm

پنجگورمیں فورسز ہاتھوں 2 افراد

Dec 8, 2019, 8:50 pm

انڈیا میں ایک فیکٹری میں آتشزدگی

Dec 8, 2019, 8:49 pm

مردوں کیلئے دنیا کا پہلا مانع

Dec 8, 2019, 8:41 pm

پنجگورمیں سی پیک روٹ پر فورسز

Dec 8, 2019, 8:12 pm

سرفراز بگٹی پر نوسالہ بچی کو

Dec 8, 2019, 4:25 pm
More...

قدیم باشندوں کا دن اور اقوام متحدہ کی ذمہ داریاں .... ڈاکٹر جلال بلوچ

Aug 9, 2019, 6:14 am

   بلوچ قوم کے نسلی تاریخ اور شناخت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض مورخین انہیں آریا نسل سے تشبیہ دیتے ہیں، کوئی کردی النسل قرار دیتاہے ، چند ایک مورخین کی آراءمیں بلوچ عرب ہیں ، کوئی انہیں ترکمان نسل اورکوئی کعنانی ، یعنی ان تمام متضاد آراءسے جو سامنے آرہے ہیں یہی تاثر ملتا ہے کہ بلوچ قوم خطہ بلوچستان میں مہاجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی نے قدیم آثار کو جانچنے کی کوشش نہیں کی جو پورے بلوچستان میں جگہ جگہ ٹیلوں کی صورت میں پھیلے ہوئے ہیں جن کی عمرجیسے کعنانی جو 4500سے 5000سال قبل وجود رکھتے تھے ، یا آریاءجو 3500سال قبل طوفان کی طرح اس خطے کو بھی لہولہان کرتے گئے، الغرض کردی النسل کا نظریہ ہو یا حضرت میر حمزہ کی اولا(عرب نسل) سے بلوچوں کا تعلق، بلوچستان کے قدیم آثار دیکھ کر بلوچ قوم کی نسلی تاریخ کے بارے میں بالا تمام نظریات مضکحہ خیز معلوم ہوتی ہیں۔ مہرگڑھ جسے دنیا میں قدیم تہذیب کامقام حاصل ہے جہاں 11000سال قبل انسان نے سماجی زندگی کی شروعات کی تھی یا کہہ سکتے ہیں کہ انسانوں کی پہلی بستی کاشرف مہرگڑھ کو ہی حاصل ہے۔اس حوالے سے اب تک کی جوتحقیق سامنے آئی ہے ان میں انسان نے پہلی مربتہ سماجی اور مدنی زندگی کا آغاز مہرگڑھ سے ہی کیا جہاں انہوں نے آبادی کو مدنظر رکھ کر اپنی ضروریات کے لیے زراعت کی بعض اقسام دریافت کی اور گلہ بانی کو فروغ دیا۔ جب ہم دنیا کی دیگر تہذیبوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں جیسے سمیری، کعنانی، عبرانی ، مصریاور ایرانی وغیرہ تو ان کی عمر یںمہرگڑھ سے انتہائی کم ہیں یہ اور بات ہے کہ ان تہذیبوں کے بارے میں معلومات زیادہ میسر ہیں کیونکہ ان آزاد اقوام نے خود کو جانچنے اور اپنی شناخت کے لیے اپنی تہذیبوں پہ تحقیق کیے لیکن بلوچ قوم جو دور جدید میں بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے وہ دنیا کی قدیم تہذیب مہرگڑھ جس کے آثار بلخصوص مٹی کے برتنوں کی نقش نگاری جو بلوچی ثقافت کو عیاں کرتی ہے پر وہ اپنی اصل شناخت جو گیارہ ہزار سال قبل کی ہے اس پہ تحقیقی کام کرنے سے قاصر ہے۔

  یہ تو ایک تعلیمی و تحقیقی بحث ہے جس میں بلوچوں کی قدیم تاریخ یا بلوچ نسل کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہے جس کے لیے آرکیالوجی، تاریخ اور انتھراپالوجی کا علم کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم آتے ہیں آج کے دن کی مناسبت سے جسے اقوام متحدہ نے ”قدیم مقامی باشندوں کا دن“ قرار دیا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ” دنیا بھر میں قدیم مقامی باشندوں کے حقوق اور ریاستوں، ان کے شہریوں اور متعلقہ علاقوں کے قدیمی افراد اور قبائل کے درمیان معاہدوں اور احترام کی اہمیت کو اجاگر کرناہے۔“ اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آیا قابض اور محکوم افراد کے درمیان مساوات ممکن ہے ؟ قابض جس کا مقصد ہی محکوم اور مفتوح اقوام کا معاشرتی، سیاسی اور معاشی استحصال کرناہے تو یہاں دونوں فریق کیسے اور کیونکر کوئی معاہدہ کرسکتے ہیں، یا ان کے درمیان حقوق کی بات ہوسکتی ہے؟ کیونکہ استحصالی طبقے نے تو اگر کوئی معاہدہ کرنا بھی ہو تو وہ بندوق کی نوک پہ کریگا جو از خود انسانی اقدار کی نفی ہے تو ایسے میں ہم کیسے اور کیوں کر یہ امید باندھے کہ کوئی مفتوح کسی قابض سے اس کے سایہ اقتدار میں حق حاصل کرسکتا ہے۔؟ بہرحال اقوام متحدہ کا یہ منشور ممکن ہے کہ ان قدیم مقامی افراد پہ لاگو ہوں جو آج اپنی شناخت قریباً کھو چکے ہیں جیسے امریکہ کے اپاچی اور ہوپی قبائل آج وجودتو رکھتے ہیں لیکن جس وقت یورپی یلغار شروع ہوئی اس وقت ان کا اپنے خطے پہ حکمرانی تھی اور وہ ایک بڑی آبادی رکھتے تھے جہاں کولمبس سے قبل اس براعظم میں پچاس سے زائد قبائل آباد تھے ۔اور سولہویں صدی کے اوائل میں ہی آباد کاروں کے ہاتھوں ایک اندازے کے مطابق اسی(80)لاکھ ریڈانڈینز کا قتل عام ہوا۔ پروفیسر مائیکل مین کی معروف تحقیقی کتاب The Dark Side of Democracyکے مطابق” دو صدیوں بعد ان کی آبادی صرف پچاس لاکھ رہ گئی۔ باقی نو(9)کروڑ ریڈ انڈین سفید فام انسانیت کے ٹھیکیداروں کے مظالم کا شکار ہوکر نابود ہوگئے۔“ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں جب ہم آسٹریلیا پہ برطانوی یلغار دیکھتے ہیں جہاں انہوں نے 1788ءمیں اس سرزمین پہ قدم رکھا اور بیسوی صدی کے تیسرے عشرے تک بیدردی سے مقامی افراد کو قتل کیا گیا ۔ یعنی لگ بھگ ایک سو پچاس (150)ایک سو ساٹھ(160) سالوں تک وہ مقامی افراد کا لہو بہاتے رہے جس سے آج اس براعظم میں مقامی افراد اپنی شناخت تک کھو چکے ہیں ، جو باقی بچھے ہیں وہ آج اس نہج پہ پہنچ چکے ہیں کہ انہیں خود کو پہچاننا بھی محال ہے۔

  ریڈ اینڈینز ہوں یا ایوریجن قبائل ان کے حوالے سے نوآبادیاتی دور کے زوال کے بعد کی ایسی کوئی تاریخی دستاویز نہیں ملتی کہ وہ اپنے خطے پہ آئینی حکمرانی کرتے ہوں، البتہ ان کی تاریخی حیثیت سے انکار ممکن نہیں جہاں وہ ہزاروں سالوں سے اپنے خطوں میں اپنے ہی سماج کے مطابق حکمرانی کرتے ہوئے زندگی بسر کررہے تھے اور ان کے ان معاشروں پہ افتاد آباد کاروں کی وجہ سے آںپڑی جس میں انہیں کروڑوں انسانوں کی قربانی دینی پڑی جس کی وجہ سے آج ان میں سے اکثریتی قبائل کی شناخت مٹ چکی ہے جبکہ فقط چند ایک قبائل آج زندہ ہیں۔ اگر ہم بلوچ قوم کی تاریخی حیثیت کو دیکھیںتو وہ بھی اس خطے میں ہزاروں سالوں سے آباد چلے آرہے ہیں جن کی نشاندہی تاریخ رقم کرنے والوں نے کبھی قبائل کے نام سے کی ہیں۔ جیسے سرپرائے(سرپرہ) پیرکانی(پریکانی) ابیری، ماما سینی(محمدحسنی) ماماشئی(محمد شئی) ہوت، مید یا بعض جگہوں پہ علاقوں کی نسبت سے ان کی پہچان کے حوالے سے تاریخی ثبوت دستیاب ہیں جیسے گدور(گدر کے اصل باشندے ) توران اور کردان۔ بہرحال یہ گزشتہ دو، ڈھائی ہزارسالہ تاریخ ہے ، بعد کے ادوار میں یعنی قباذ اور نوشیروان کے عہد کے واقعات میں فردوسی لفظ بلوچ رقم کرتا ہے جس سے مراد ایک تاریخی اور تہذیبی عمل سے گزرنے کے بعد بلوچ مکمل قومی سانچے میں ڈھل چکا تھا۔ لیکن ابن خلدون جسے ہزار سال کا عرصہ بیت چکا ہے وہ اپنے مقدمے میں بلوچ قوم کو بادیہ نشین قرار دیتا ہے ، البتہ اس سے اس امر کو تقویت پہنچتی ہے کہ بلوچ اجتماعی طور پہ زندگی گزاررہے تھے اور اپنی پہچان قبائل سے زیادہ قومی بنیاد وں پہ کررہے ہوںگے شاید اسی لیے ابن خلدون سے ہزار ، ڈیڑھ ہزار سال قبل ان قبائل کے نام ملتے ہیں اور ساسانی عہد میں قومی بنیاد پہ ان کی پہچان کے ثبوت شاہنامہ میں رقم ہے، لیکن ابن خلدون انہیں بادیہ نشین کا لقب دیا جاتا ہے۔ غزنوی دور میں جہاں ابن خلدون اپنا مقدمہ تحریر کرتا ہے اس میں اگر وہ انہیں بلوچ کہنے سے کترارتا ہے تو اس کی بڑی وجہ خطہ بلوچستان میں آباد بلوچ قوم سے غزنوی کا ذاتی عناد ہوسکتا ہے کیونکہ بلوچ قوم نے اس خطے سے گزرنے والے بہت سارے افغان قافلوں کو لوٹ لیا تھا اور بعد میں غزنوی بلوچوں سے کھلے میدان میں مقابلہ کرنے کی بجائے افغان قافلوں میں زہر آلود سیب بھیجنا شروع کرتا ہے یہ قافلے بھی بلوچستان میں بلوچوں کے ہاتھوں لُٹ جاتے ہیں ۔ بلوچ جو غزنوی کی اس چال سے بے خبر تھے ،اسی بے خبری نے بہت سارے بلوچوں کی جان لی۔یہ کہنا بھی قیاس آرائی نہیں کہ ابن خلدون خوف غزنوی کی وجہ سے بلوچوں کو بلوچ کہنے سے عاجز آچکا تھا۔

  بلوچوں کی اس پہچان کے علاوہ مختلف خطوں جہاں آج بھی بلوچ آباد ہیں ان میں بلوچوں کی مختلف ادوار میں حکمرانی کے تاریخی شواہد ملتے ہیں جیسے کرمان پہ بلوچوں کا ہخامنشیوںسے قبل کی حکمرانی، رخشان(خضر، نارو۔ جو سیستان سے لیکر نوشکی،چاغی، خاران اور موجودہ پنجگور کے کچھ حصوں پہ مشتمل تھا) پہ ریاستی حکمرانی کے حوالے سے بعض مورخین اتفاق رکھتے ہیں اور پروفیسر فاروق بلوچ اپنی کتاب ”بلوچ اور ان کا وطن“ میں ریاست” بیلوس “ جو کوئٹہ سے لیکر قندھار تک پھیلا ہوا تھا کے حوالے سے نشاندہی کرتا ہے۔آج بھی پشتون قوم بلوچ کو بلوص کہتا ہے ۔یہ آخری بلوچ ریاست ”ریاست قلات“ سے قبل کی بلوچ خطے پہ بلوچ حکمرانی کے شواہد ہیں ۔جب ہم ریاست قلات کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو 1410ءمیں بلوچوں کے قمبرانی قبیلے کاایک طائفہ میروانی بلوچوں نے سوراب اور اس کے مضافات کے دیگر بلوچ قبائل کو یکجاءکرکے نغاڑ(سوراب کا ہی ایک علاقہ) میں اپنی ریاست کی بنیاد رکھتے ہیں یہی ریاست ازبعد وسیع ہوکر ریاست قلات کی شکل اختیار کرتا ہے جب بلوچ 1530ءمیں قلات میں ارغونوں کو شکست دیتے ہیں ۔ میروانی بلوچ 1666ءتک بلوچستان پہ حکمرانی کرتے ہیں ان کے بعد ریاست قلات کی ذمہ داریاں قمبرانی بلوچوں کی ایک اور شاخ احمدزئی خاندان کے پاس چلی جاتی ہے جہاں 1666ءسے 1948ءپاکستان کا بلوچستان پہ جبری قبضے تک یعنی اقوام متحدہ کے بننے کے تین سال بعد تک حکمرانی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔
   
   برطانوی عہدمیں انگریزوں نے جو مظالم ڈھائے وہ تاریخ کا حصہ ہے اس سے انکار ممکن نہیں لیکن یہاں بلوچ قوم اور دنیا کے بعض ایک دیگر اقوام میں جو فرق نظر آتا ہے وہ ہے خطے پہ اقوام متحدہ کے وجود میں آنے کے بعد کی حکمرانی اور ہر دور میں قومی تشخص کی بقاءکی خاطر جدوجہد کرنا۔جس نے آج تک بلوچ قوم کو زندہ رکھا ہوا ہے یا دیگر اقوام کی نسبت جو آج کہیں چند ہزاریا چند لاکھ تک رہ گئے ہیں جبکہ بلوچوں کی آبادی آج بھی کروڑوں میں ہیں اور وہ اپنی آزاد ریاست کے لیے آج بھی جدوجہد کررہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقوام متحدہ کے وجود میں آنے کے بعد جو فطری ریاستیں تھیں ان کے وجود کونہ صرف تسلیم کیا جاتا بلکہ ان کی بقاءکے لیے استعماری طاقتوں کے خلاف عملی اقدامات کیے جاتے، لیکن بلوچوں کی بدقسمتی یا ان اداروں کا بھی استعمارکے ہاتھوں یرغمال ہونا تھا کہ حق اقتدار تسلیم کرنے کے باوجود بھی کسی قوت بشمول اقوام متحدہ نے بھی پاکستانی قبضے کے خلاف بلوچوں کے حق میں کوئی عملی پیش رفت نہیں کی بلکہ آج اقوام متحدہ ان قدیم باشندوں جن کے اقتدار پہ غیروں نے قبضہ جما رکھا ہے ان کے حوالے سے فقط بالا درج چند ایک سماجی حقوق کی بات کرتی ہے جو ان قدیم اقوام کے استحصال کا ہی ایک ذریعہ ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ ان قدیم اقوام جنہیں وہ قبائل کا نام دیتا ہے ان کا آباد کاروں سے معاہدات کی بابت بات کرتا ہے لیکن وہ یہ کہنے سے قاصر ہے کہ بعض خطوں میں جیسے بلوچستان میں ایسے معاہدات نوآبادیاتی نظام کے دوران ریاست اور قبضہ کے درمیان ہوئی تھی نہ کہ کسی قبیلے کے۔ لہذا ان معاہدوں کی پاسداری کے حوالے سے اقوام متحدہ اپنے منشور کی تسعی کرے اور جو معاہدات دو ریاستوں کے درمیان ہوئی تھی ان پہ عمل درآمد یقینی بناجائے تو دنیا میں ان قدیم اقوام جن کے حقوق کا ڈرامہ رچایاجاتا ہے انہیں ان کے فطری حقوق میسر آئینگے اور یہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے آئین کا آرٹیکل ۵۱کی بھی مکمل ترجمانی ہوگی کہ ”ہر شخص کو قومیت کا حق حاصل ہے۔“ اور تمام اقوام کا یہ مشترکہ ادارہ(اقوام متحدہ) ان اقوام کو ان کا فطری حق دے کر ہی اپنے فرائض کی تکمیل کرسکتا ہے۔

  حقوق کیا ہیں؟ کیا کسی قدیم قوم کو دو وقت کی روٹی دینا، انہیں چند ایک شہری حقوق دینا، یا ان کے چند سماجی حقوق کی پاسداری کرنا،جیسے قدیم اقوام کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے۔ آیا یہ تمام حقوق ملنے کے بعد ان کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکتے ہیں میرے خیال میں نہیں کیونکہ جب تک آپ انہیں ان کا فطری حق یعنی خطے میں اقتدار اعلیٰ کا مالک نہیں بنائینگے ان کے استحصال کا عمل جاری رہیگا،چاہے ان سے ان کا اقتدار چھین کرآپ ان کے قدموں کے خزانوں کے انبار ہی کیوں نہ لگا دے۔البتہ دنیا کے وہ قدیم باشندے جو آج فقط چند ہزار افراد پہ مشتمل ہیں ان کے اقتدار اعلیٰ کی بات کچھ اور ہے لیکن وہ اقوام جو آج بھی کروڑوں میں موجود ہیں جیسے بلوچ قوم جس کی کل آبادی لگ بھگ چار(4)کروڑ ہے ان کا فطری حق یعنی اقتدار اعلیٰ پہ جبری قبضہ کرنا اور قبضے کے خلاف عالمی اداروں کی خاموشی ہی قدیم اقوام کے استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ ہے چاہے اس حوالے سے اقوام متحدہ ان اقوام کی حیثیت ماننے کے لیے کتنے ہی دن کیوں نہ مختص کرے۔آج وقت آچکا ہے کہ عالمی ادارے ان قدیم اقوام کی جو کثیر آبادی رکھتے ہیں ان کا فطری حق تسلیم کرلے اسی میں قدیم باشندوںکی سالمیت اور بقاءہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں اس بات پہ حیرانی ہوتی ہے کہ آج کا نوآباد کار جو تہذیب سے نہ آشناءہے اور وہ اس خطے کے افراد کوتہذیب سکھانے کا ڈھونگ رچا رہا ہے جنہیں نہ صرف دنیا کی پہلی تہذیب کا شرف حاصل ہے بلکہ دنیا کے بیشترخطوں کو تہذیب سے آشناءکرنے کا سہرا بھی انہی کے سرجاتا ہے۔تہذیب کے ان بانیوں کے فطری حقوق کے حوالے سے جس کے لیے یہ قوم روز اول سے جدوجہد کررہی ہے ان کے اس عمل کو دوام بخشنے کے لیے نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ دنیا کے مہذب اقوام کو بھی سوچنا اور عملی اقدامات کرنے ہونگے ۔
٭٭٭

 

© 2013 Daily Sangar. All Rights Reserved.
Email: [email protected], [email protected]