• Sangar English
  • رابطہ
  • آر کائیو
    • خبریں
    • مقبوضہ بلوچستان
    • انٹرنیشنل
    • جنوبی ایشیاء
    • کھیل و فن
    • سائنس اور ٹیکنالوجی
    • اداریہ
    • مضامین
    • تجزیہ
    • رپورٹس
    • انٹرویوز
    • بلوچی مضامین
    • براہوئی مضامین
    • شعر و شاعری
  • تصاویر
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیوز
    • آڈیوز
  • کتابیں
  • سنگر میگزین
  • انٹرویوز
  • مضامین/ کالمز
  • اداریہ
  • پہلا صفحہ

تازہ ترین خبریں

اختر مینگل کا راجن پور وڈی جی

Dec 16, 2019, 11:30 am

واشنگٹن و کابل مابین افغانستان

Dec 16, 2019, 11:28 am

چین نے امریکی مصنوعات پر ٹیرف

Dec 16, 2019, 11:25 am

آب و ہوا کی تبدیلی حوالے عالمی

Dec 16, 2019, 11:24 am

ترکی نے لیبیا کی قومی وفاق حکومت

Dec 16, 2019, 11:21 am

گوگل ارتھ اب زمین کے 98 فیصد رقبے

Dec 16, 2019, 11:20 am
More...

سی پیک کی ناکامی بلوچ جہد آزادی کا روشن باب -- سنگر خصوصی رپورٹ

Sep 21, 2019, 9:51 am


 
      بلوچستان کا ساحلی پٹی جو دنیا بھر کی نظروں میں ہے اور چین نے ایک بڑے منصوبے سی پیک پر سرما یہ کاری کی ہے جواب ناکامی کا مکمل شکار ہو چکی ہے۔مقبوضہ بلوچستان، بل خصوص ساحلی پٹی،گوادر جو اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے اہم حیثیت کا عامل ہے پر دنیا بھر کی سرمایہ کاروں سمیت عسکری قوتوں کے لیے اس خطے میں قدم جمانے کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں امریکہ نے دلچسپی ظاہر کی پھر روس و دیگر ممالک نے اور گزشتہ دہائی سے چین ساحل بلوچ اور بلوچ معدنیات پر قبضہ کا خواہاں رہا اور چائنا پاکستان اکنامک کوری ڈور (سی پیک)پر بھاری سرمایہ کاری کر گیا،سرمایہ کاری کے ساتھ پاکستان کو بھاری معاشی و عسکری مدد اور قرضے بھی سی پیک کے آڑ میں دئیے گئے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق چین نے سی پیک کی کامیابی اور فنکشنل ہونے کے امید میں پاکستان کو بھاری قرضہ بھی دیا، مگر زمینی صورت حال اس وقت تبدیل ہو گئی جب بلوچ سرمچاروں نے پہ رد پے سی پیک سے منسلک عسکری تعمیراتی کمپنی ایف ڈبلیواو سمیت پاکستانی فورسز کو تیزی سے نشانہ بنا شروع کیا اس کے ساتھ بلوچ جانبازوں نے چینی سرمایہ کاروں کو بھی نشانہ بنایا اور مقامی ٹھیکداروں کو بھی تنببیہ کرنے کے ساتھ انکے سازو سامان و مشینریوں کو روزانہ کی بنیاد پر مسلح حملوں کا نشانہ بھی بنایا اور یوں اولذکر سی پیک منصوبے کے عمل میں سست روی دیکھنے میں آیا اور آج ماہرین کی آراء میں سی پیک منصوبے کا قیام ایک مردہ جسم کی مانند ہوچکا ہے۔
        واضح رہے کہ پاکستانی عسکری حکومت نے متعدد بار چین کو یقین دلایا کہ  سیکورٹی کا پورا نتظام کیا گیاہے  اور سی پیک سیکورٹی پروف پروجیکٹ ہے، جس پر چین سے  ایک قافلہ و پھرامن مارچ کا ڈرامہ رچایا گیا مگر بلوچ سرمچاروں نے چینی ٹرالروں کو جو زمینی فوج کے ساتھ تین گن شپ ہیلی کاپٹروں کی محفوظ حصار میں تھے حملہ کیا اور پاکستانی دعوی کا پردہ پاش کر دیا۔


        رواں سال چین کے بڑے سرمایہ کاروں نے گوادر کا رخ کیا اورمقامی ذرائع بتاتے ہیں ساٹھ سے زائد چینی،عرب اور ٹوٹل ایک سو سے زائد افراد گوادر کی معروف فائیو اسٹار ہوٹل (پرل کنٹینٹل) میں رکھے جن پر بلوچ سرمچاروں نے انتہائی منظم حملہ کیا۔ دو روز جاری رہنے والے بلوچ سرمچاروں کے اس حملے نے دنیا کو چونکا دیا کہ سی پیک کو لے کر پاکستان کے دعوے مکمل بے بنیاد ہیں اور بلوچ اپنی سر زمین کسی کے حوالے نہیں کرینگے۔
       مصدقہ ذرائع کے مطابق بلوچ سرمچاروں کے اس فدائی حملے میں نہ صرف پاکستانی فوج کے کئی اہلکاروں ہلاک ہوئے بلکہ چینی  و عرب سرمایہ کاروں سمیت موجود چند پاکستانی سرمایہ کاروں کو بھی موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔گوادر حملے سے قبل سی پیک منصوبہ جو آخری سانسیں لے رہی تھیں پرل کنٹینٹل حملے نے اس منصوبے کے خاتمے کے لیے آخری کیل کا کردار ادا کیا۔

 

         بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیمیں ہمیشہ سے یہ کہتی رہی ہیں کہ بلوچ سرزمین پر کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری اس وقت تک نہیں قبول ہو گا جب تک بلوچ کی مرضی شامل نہ ہو یا آسان الفاظ میں جب تک بلوچ اپنی سرزمین و ریاست کا مالک خود بننے۔
بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک تازہ ٹیوٹ میں بھی سی پیک کی ناکامی کا ذکر کچھ یوں کیا کہ
 ”سی پیک اب ایک مردہ پروجیکٹ ہے۔ بلوچ بیٹوں نے اپنی بقا اور چین کو یہ باور کرانے کے لئے بڑی قربانیاں دیں کہ بلوچ نامی ایک مضبوط قوم بلوچستان میں رہتی ہے۔ ان کی رضامندی کے بغیر ان کے وطن پر کچھ نہیں ہوسکتا“۔
 
       واضح رہے کہ سی پیک حوالے  رپورٹس و  تجزیے یہ عندیہ دیتے ہیں کہ یہ پروجیکٹ ختم ہو چکا ہے، گوادر سے ایک مقامی صحافی کے مطابق  اس وقت سی پیک نامی کوئی چیز گوادر میں دیکھائی نہیں دیتی ہے، ان کے مطابق فوج و دیگر خفیہ اداروں کے علاوہ بظاہر سی پیک مکمل خاموشی کا شکار ہے۔جبکہ خضدار اور جھل مگسی کو ملانے بل کھاتی والی شاہراہ (ونگو) کی تعمیر کو چائنا نے پہلے ہی رد کردیا ہے۔ 
کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق چین نے سی پیک کی مد میں پاکستان کو نہ صرف بھاری قرضہ دیا بلکہ بہت بڑی سرمایہ کاری بھی کی ہے مگر بلوچ آزادی پسندوں کی جانب سے پہ در پے حملوں نے اس پروجیکٹ کو ناکام بنا دیا ہے اور پاکستان جو پہلے ہی سے معاشی زبوحالی کا شکار ہے اب مزید ابتر صورتحال سے دوچار ہوچکا ہے۔

        چند برس قبل جوش و خروش سے شروع کی جانے والی پاک چین اقتصادی راہداری پر کام کی رفتار کو اگر دیکھا جائے تو آج اس پہ بڑی حد تک جمود طاری ہوچکا ہے جہاں گوادر ہوائی اڈے اور تین سو میگاوٹ بجلی کے منظور شدہ منصوبوں کی تعمیر کے لیے بھی آج ان کے پاس بجٹ نہیں کیونکہ اس مد میں جو بجٹ تھی یا ہے وہ سکیورٹی کی مد میں خرچ ہوچکی ہے ا سی لیے کئی حلقوں کی رائے میں آنے والے وقتوں میں اس منصوبے پر مکمل جمود طاری ہو جائے گا یا پھر اسے مکمل طور پہ ختم کر دیا جائے گا۔ 

       سی پیک منصوبہ جو ماہرین کی نگاہ میں ایک ناکام منصوبہ ہے لیکن پاکستان ایک بار پھر سی پیک کو لے کر چند ایک نام نہاد بلوچوں کے ذریعے جن میں ڈاکٹر مالک و دیگر افراد شامل ہیں اس کوشش میں ہیں کہ اس پروجیکٹ کو سہارا ملنا چاہیے تاکہ فوج اور ان نام نہاد سیاست دانوں کا گزر بسر چلتا رہے۔

        پچاس ارب ڈالر سے زائد کے اس منصوبے کو مسلم لیگ ن کی حکومت میں بہت جوش و خروش کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں یہ پروجیکٹ اتنی اہمیت اختیار کرگیا کہ سیاسی جماعتیں اس کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوششیں کرتی رہی تھیں۔ چند تجزیہ نگاروں نے تو اس منصوبے کا سہرا سابق فوجی آمر پرویز مشرف اور اس کے بعد کی فوجی قیادتوں کے سر باندھنا بھی شروع کر دیا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان میں کئی حلقوں نے سی پیک کو مقدس گائے کہنا شروع کر دیا اور اس پر تنقید کرنے والوں کی حب الوطنی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا۔پھر پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد اس منصوبے پر بالواسطہ حملے بھی شروع ہو گئے تھے۔ پہلے وزیر تجارت رزاق داؤد نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا اور پھر وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید نے سی پیک کے کچھ منصوبوں کے حوالے سے سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر بد عنوانی کے الزامات بھی لگائے تھے۔

        اب پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ سی پیک پر کام تقریبا  رک چکا ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کے سابق ترجمان اور پاکستانی خفیہ اداروں کے اہم کارندے جان محمد بلیدی کے خیال میں موجودہ حکومت کی ترجیحات میں سی پیک کہیں نہیں ہے۔ اس حوالے سے ان کہنا ہے کہ ''گوادر ایئر پورٹ کے لیے زمین لے لی گئی ہے لیکن اس پر کوئی کام نظر نہیں آ رہا۔ چین کو گوادر میں تین سو میگاواٹ کا پاور پلانٹ بھی لگانا تھا۔ اس کے لیے بھی زمین خریدی جا چکی ہے مگر کوئی کام نظر نہیں آ رہا۔ گوادر کی بندرگاہ پر بھی جمود طاری ہے۔ تو گزشتہ ایک برس میں سی پیک پر بمشکل ہی بلوچستان میں کوئی کام ہوتا دکھائی دیا ہے۔ میرے خیال میں یہ پروجیکٹ اب تقریبا رکا ہوا ہے۔“

          کئی حلقوں کا خیال ہے کہ چینی رہنما سی پیک سے جڑے منصوبوں میں بد عنوانی کے الزامات کی وجہ سے ناراض ہیں۔ سی پیک  سے جڑی ایک اہم خبر وزارت کے ایک افسر سے جڑی ہے جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ کہا ہے کہ ''جب رزاق داؤد اور مراد سعید نے الزامات لگائے تو چینی بہت پریشان ہوئے۔ پہلے وہ قرضے دیتے تھے اور بعد میں پروکیورمنٹ کا کہتے تھے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ آپ پروکیورمنٹ پہلے کریں اور اس بات کی بھی ضمانت نہیں دیتے کہ وہ قرضے دیں گے بھی یا نہیں۔ تو حکومت پروکیورمنٹ کیسے کر سکتی ہے؟ اس کے پاس تو فنڈز ہی نہیں ہیں۔ ان حالات میں تو یہی لگتا ہے کہ سی پیک اب تاریخ کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس پر اب کوئی کام ہو گا۔ اگر ہوا بھی، تو اس کی رفتار بہت سست ہو گی۔“
 
       سیاست دانوں کے خیال میں بھی بد عنوانی کے الزامات  اور بلوچ  سرمچاروں کے حملوں نے چینیوں کو پریشان کر دیا ہے۔   
         ماہرین، پاکستانی سیاستدان اور بلوچ آزادی پسندوں کی اگر سی پیک کے حوالے سے آراء کو دیکھا جائے تو سب میں ایک بات مشترک نظر آتا ہے کہ یہ منصوبہ مکمل طور پرزوال پذیر ہوچکا ہے جس کی کامیابی کی اب کوئی امید نہیں۔ اس کی وجہ چاہے پاکستان کے مقتدر قوتوں کی بدعنوانی ہو یا دیگر عالمی طاقتیں جو اس منصوبے کو معاشی سے زیادہ عسکری حوالوں سے دیکھتے ہیں۔لیکن اس منصوبے کو ناکام بنانے میں بنیادی کردار بلوچ آزادی پسندتنظیموں نے ادا کیا جہاں شروع دن سے اس منصوبے کو ان تنظیموں نے اپنی مسلح کارروائیوں کا نشانہ بنایا جو آج تک اسی تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ جس کے سبب پہلے پہل اس منصوبے پہ کام کی رفتار سست روی کا شکار ہوا اور ازبعد اس منصوبے پہ خرچ ہونے والی رقم کا ایک بڑا حصہ سیکورٹی کی مد میں خرچ ہونے لگا۔ بلوچ آزادی پسندوں کے حملوں کا یہ تسلسل چائنا کے لیے کسی لمحہ فکریہ بن چکا ہے اور اسے اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ بلفرض اگر منصوبے کو جاری بھی رکھا جائے تو مستقبل میں اس کی کامیابی کی کوئی امید نہیں کیونکہ اب تک کے بلوچ سرمچاروں کے حملوں نے ایسا تاثر پیدا کیا ہے کہ وہ اس منصوبے کو جسے پاکستان اپنی موت و زیست تصور کرتا ہے اسے مستقبل میں بھی اسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسے عالم میں چائنا اور دنیا کے دیگر سرمایا کاروں کو بھی یہ ادراک ہوچکا ہے کہ اس منصوبے کو چاہے جس حد تک سیکورٹی مدد فراہم کی جائے یہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔اسی لیے آج ہم دیکھتے ہیں کہ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور ایک مردہ منصوبے کی شکل اختیار کرچکا ہے جس میں چائنا کے ساتھ ساتھ بعض پاکستانیوں کی بھی دلچپسی ختم ہوچکی ہے۔

        سی پیک منصوبے کی اس ناکامی کی وجہ سے نہ صرف بلوچ سماج بلکہ دنیا کو بھی یہ پیغام ارسال ہوچکا ہے کہ بلوچ وطن کی آزادی کے لیے برسرپیکار تنظیمیں اپنے وطن اور قوم کی دفاع کی بھر صلاحیت رکھتے ہیں جو اپنی سرزمین پر کسی بھی استحصالی منصوبے اور غلامی کو دوام بخشنے والی سوچ کے خلاف آخری حد تک جاسکتے ہیں۔

© 2013 Daily Sangar. All Rights Reserved.
Email: [email protected], [email protected]