• Sangar English
  • رابطہ
  • آر کائیو
    • خبریں
    • مقبوضہ بلوچستان
    • انٹرنیشنل
    • جنوبی ایشیاء
    • کھیل و فن
    • سائنس اور ٹیکنالوجی
    • اداریہ
    • مضامین
    • تجزیہ
    • رپورٹس
    • انٹرویوز
    • بلوچی مضامین
    • براہوئی مضامین
    • شعر و شاعری
  • تصاویر
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیوز
    • آڈیوز
  • کتابیں
  • سنگر میگزین
  • انٹرویوز
  • مضامین/ کالمز
  • اداریہ
  • پہلا صفحہ

تازہ ترین خبریں

مودی حوالے ”ریپ ان انڈیا“ کے

Dec 15, 2019, 11:34 am

افغانستان میں ایرانی مداخلت

Dec 15, 2019, 11:30 am

ایران کا واحد حل ملک میں مذہبی

Dec 15, 2019, 11:28 am

سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کا

Dec 15, 2019, 11:26 am

سوڈان کے سابق صدر عمرالبشیر

Dec 15, 2019, 11:25 am

کوئٹہ سے خواتین کی حراست بعد

Dec 14, 2019, 8:19 pm
More...

سی پیک کی کامیابی کیلئے بلوچ عوام کی بے دخلی کا فیصلہ

Jul 5, 2016, 9:10 pm

چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC)جسے پاکستان کی بقا و زیست قرار دیا جارہا ہے اپنی تعمیر کی ابتدائی مراحل میں شدید مشکلات و مصائب کا شکار ہے ۔چین اور پاکستان نے گزشتہ سال چھیالیس ارب ڈالرز کی لاگت سے اقتصادی راہداری منصوبے کی بنیاد رکھی تھی۔یہ ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے، جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی نہ صرف کم وقت میں ترسیل کرنا ہے بلکہ یہ چین و پاکستان کے دفاعی و خارجہ پالیسی کا ایک انتہائی اہم جزہے ۔گذشتہ سال اپریل2015کو چینی صدر کے دوروزہ دورہ پاکستان دوران چین اورپاکستان نے 51 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے۔ان طے پانے والے منصوبوں میں 30 سے زائد منصوبے اقتصادی راہداری سے متعلق تھے۔ بلوچستان میں جاری شورش کے پیش نظر چین نے شدید خدشات و تحفظات کا اظہار کیا جس پر پاکستانی سول و اسٹیبلشمنٹ مقتدرہ نے انہیں ہر طرح کی تحفظ دینے کی یقین دہانی کی جس پر چین کو کچھ ڈھارس ملی اور انہوں نے سی پیک پر کام کا آغاز کرکے اسے تیزی کے ساتھ تکمیل کی جانب گامزن کیا لیکن بلوچ عسکریت پسندوں کی جانب سے مسلسل حملوں کے باعث چین نے پاکستان جانب اپنی کارکنان و سی پیک کی تکمیل کی سیکورٹی کو انتہائی ناکافی قرار دیکر شدید خدشات و تحفظات کا اظہار کیا اور یہ تک کہہ دیا کہ سی پیک کی تکمیل میں انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔چونکہ یہ منصوبہ پاکستان کی زیست ومرگ سے جڑا ہے اسی لئے پاکستان آرمی نے اس کی سیکورٹی کی مکمل ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ فوج نے منصوبہ کی سیکورٹی کیلئے لیفٹیننٹ جنرل کی سربراہی میں ایک سپیشل سیکورٹی ڈویڑن قائم کر دیااور ساتھ یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ وہ اس راہداری کی حفاظت ہر قیمت پر یقینی بنائے گی۔پاکستان اور چین کے حکام نے یکم نومبر 2015ء کو ایک چار درجاتی سیکورٹی پلان کی منظوری دی جس کے تحت 3000کلومیٹر پر محیط اس راستے کی حفاظت کے لئے 32000 اہلکار وں کو تعینات کیا گیا جو راہداری کے ساتھ ساتھ پاکستان چین میگا پراجیکٹس پر کام کرنے والے عملے کی حفاظت بھی یقینی بنائیں گے۔اقتصادی راہداری کے پراجیکٹ ڈائریکٹر میجر (ر)ظاہر شاہ کا کہنا ہے کہ اس نئے سیکورٹی پلان کے تحت بلوچستان کو 5700ایف سی اہلکار، 3000پولیس کانسٹیبل اور ایک ہزار لیویز اہلکار دیئے گئے۔گوادربندرگاہ کی حفاظت کی ذمہ داری پاکستان میرینزاور بارڈر سیکورٹی فورس کوسونپ دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کی اپنی الگ سیکورٹی فورس اس کے علاوہ ہوگی۔اب یہی فوج کی الگ سیکورٹی بلوچستان میں راہداری کی روٹ جہاں جار رہی ہے وہاں آباد بلوچ بستیوں کو عسکریت پسندوں کی کیمپ سے تشبہیہ دیکر آئے روز زمینی وفضائی بمباری کر رہی ہے ۔بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا رہی ہے ،عام لوگوں کو حراست میں لیکر لاپتہ کیا جارہا ہے۔خواتین و بچوں ،بوڑھوں کو شدید و غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنا یا جارہاہے۔گھرواملاک کو نذر آتش کیا جارہاہے ،اور گھروں کی قیمتی اشیالوٹ مارکرکے لے جارہی ہے۔ضلع آوارن،ضلع کیچ، ضلع گوادر،ضلع پنجگورسندھ سے ملحق بلوچستان کے علاقے جہاں اس راہداری کی روٹ ہے وہاں فوجی آپریشن و بربریت سے زندگی محال ہوچکی ہے ۔معمولات زندگی اورلوگوں کا کاروبارو بچوں کی تعلیم شدید متاثر ہے۔کیچ کے نواحی علاقوں دشت،زریں بگ،ہوشاپ و غیرہ جبکہ ضلع پنجگور کے پروم اور ضلع گوادرکے کلانچ وغیرہ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے آئے روز فورسز کی کارروائیوں اور عام افراد کی حراست و گمشدگی سے متاثر ہوکر نقل مکانی کرکے کراچی،تربت شہر،گوادر شہر، پسنی شہر،حب ، اندرون سند ھ سمیت بیرون ملک منتقل ہوگئے ۔ 
فورسز نے مذکورہ علاقوں میں اتنی بربریت پھیلائی ہے کہ لوگ مجبور ہوگئے کہ وہ اپنی جدی پشتی زمین و جائیداد کو چھوڑ کر خالی ہاتھ آئی پی ڈی کی زندگی گزار نے کو ترجیح دے رہے ہیں۔اب تک ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنا علاقہ چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ان کی گھر بار تو پہلے سے فورسز نے زمینی و فضائی کارروائیوں کے دوران نذر آتش کئے تاکہ انہیں نقل مکانی پر مجبور کیا جاسکے۔یہ بات سرکاری ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہر مہینے فورسز 250فوجی آپریشن کر رہی ہے ۔چین کے خدشات و تحفظات دور کر نے کیلئے اسٹیبلشمنٹ مقتدرہ نے بلوچ عسکریت پسندوں کیخلاف ہر قسم کی پالیسی اپنائی لیکن وہ کارگر ثابت نہ ہوسکے جس سے سرکاری رٹ کا قیام ایک سوالیہ نشان بنتا رہا اور ادھر چین اقتصادی راہداری منصوبے کے لئے مختص اپنی چھیالیس ارب ڈالرز ررقم ڈوبنے کے خدشے کے پیش نظر پاکستانی مقتدرہ کو اپنی خدشات سے آگاہ کرتارہا کیونکہ بلوچستان صورتحال پر اس کا مکمل نظر ہے اور وہ پاکستانی فوج کے اس سیکورٹی سے کسی حال میں بھی مطمئن نہیں تھا تب جاکر جنرل راحیل نے بلوچستان میں شہروں سے الگ دیہی علاقوں میں راہداری روٹ پر واقع ان انسانی بستیوں کو مکمل نشانہ بنانے کا پلان مرتب کیا کیونکہ ایجنسی ذرائع کے مطابق راہداری کو نقصان پہنچانے والے بلوچ عسکریت پسند انہی راہداری روٹ والے علاقوں میں ان بستیوں کے آڑ میں منصوبے کو نشانہ بنارہے ہیں اور مذکورہ بستیوں کے لوگ ان کے لئے سہولت کار کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔مذکورہ بستیوں کو مکمل صفحہ ہستی سے مٹانے اور لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کیلئے پہلے پہل سیکورٹی ایجنسیوں نے پاکستانی میڈیا کو مکمل اعتماد میں لیااور اسے کسی قسم کی خبر کی اشاعت کیلئے ممانعت کی گئی ۔راہداری کی کامیابی کے لئے اسٹبلشمنٹ مقتدرہ نے بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں لوگوں کی مکمل نقل مکانی کو ایک اہم نکتے کے طور پر محسوس کیا اور اس پر فوری طور پر عمل کا آغاز کردیا۔بلوچستان بھر میں فوجی کارروائیوں کی آڑ میں بلاوجہ لوگوں کو تنگ کرنا اور انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنانا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی تاکہ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوسکیں۔پہلے پہل لوگوں کے ذرائع معاش کو ختم کیا گیا بعد ازاں گھر بار کو نذر آتش کیاگیا تب جاکر ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنا علاقہ چھوڑ نے پر مجبور ہوگئے اور یہی پاکستانی مقتدرہ بشمول چین چاہتی تھی۔
بلوچستان سے بلوچ عوام کی بے دخلی کوپاکستانی مقتدرہ سی پیک کی کامیابی کے لئے ایک اہم حکمت عملی قرار دے رہی ہے لیکن چائنا کے خدشات اب بھی توانا ہیں کیونکہ ابھی تک بلوچ عسکریت پسندوں نے ہتھیار نہیں ڈالے ۔اورجب تک بلوچستا ن کے پہاڑوں میں ایک بھی بلوچ عسکریت پسند زندہ ہے اس وقت تک راہداری پر چائنا و پاکستان کے خدشات و تحفظات دور نہیں ہوسکیں گے اور انہیں راہدری کی کامیابی کا غم دیمک کی طرح چاٹتا رہے گا۔
اقتصادی راہداری منصوبے کی تعبیرچین اور پاکستان کی سپر پاورحیثیت کی تعین کریگی۔اگر یہ منصوبہ کامیاب رہاتو چین سپر پاور اور پاکستان اسلامی شدت پسندی کامین پاوربن جائے گا لیکن بدلتی ہوئی عالمی صورتحال ، بلوچستان میں جاری شورش ،ایران ،انڈیا اور افغانستان کی نئی ٹرائی اینگل سمیت انڈیا و ایران کی چابہار پورٹ کی تعمیرِنو راہداری کے لئے نیک شگون نہیں ۔ 

© 2013 Daily Sangar. All Rights Reserved.
Email: [email protected], [email protected]