• Sangar English
  • رابطہ
  • آر کائیو
    • خبریں
    • مقبوضہ بلوچستان
    • انٹرنیشنل
    • جنوبی ایشیاء
    • کھیل و فن
    • سائنس اور ٹیکنالوجی
    • اداریہ
    • مضامین
    • تجزیہ
    • رپورٹس
    • انٹرویوز
    • بلوچی مضامین
    • براہوئی مضامین
    • شعر و شاعری
  • تصاویر
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیوز
    • آڈیوز
  • کتابیں
  • سنگر میگزین
  • انٹرویوز
  • مضامین/ کالمز
  • اداریہ
  • پہلا صفحہ

تازہ ترین خبریں

وی بی ایم پی و بی ایچ آراو کا

Dec 8, 2019, 8:51 pm

پنجگورمیں فورسز ہاتھوں 2 افراد

Dec 8, 2019, 8:50 pm

انڈیا میں ایک فیکٹری میں آتشزدگی

Dec 8, 2019, 8:49 pm

مردوں کیلئے دنیا کا پہلا مانع

Dec 8, 2019, 8:41 pm

پنجگورمیں سی پیک روٹ پر فورسز

Dec 8, 2019, 8:12 pm

سرفراز بگٹی پر نوسالہ بچی کو

Dec 8, 2019, 4:25 pm
More...

پاہار: بلوچستان میں ریاستی بر بریت2016کے تناظر میں....سنگرتجزیاتی رپورٹ

Jan 16, 2017, 7:06 pm


......پاھار......
بلوچستان میں ریاستی بر بریت2016کے تناظر میں
1146فوجی آپریشنز میں3534 افرادلاپتہ،694لاشیں برآمد


سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے


ایک اور سال 510 بلوچ فرزندوں کی لہوسے بلوچستان کو لہولہان کر کے اختتام پذیر ہوا۔2016 کا سال بھی دیگر سالوں کی طرح بلوچ سرزمین پر ریاستی جبر کی داستانیں لیے تاریخ میں رقم ہو گیا ۔اس سال بلوچ قومی جہد آزادی کے عظیم رہبر ڈاکٹر منان بلوچ کی چار ساتھیوں سمیت شہادت ایک المیہ سے کم نہ تھا۔عظیم سیاسی رہنما کی شہادت،کارکنوں و رہنماؤں کے لیے انقلاب کی نوید اور تجدید عہد لیے ایک باب کی حیثیت بن گیا۔2016 میں دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی فوج نے 1146 آپریشن کر کے 890 گھروں میں لوٹ مار کے بعد ان کو نذر آتش کیا۔اسی سال 3534 افراد کو نے حراست میں لیکر لاپتہ کیا۔لاپتہ افراد کی اس سال تعداد ان سے زیادہ ہو سکتی ہے جبکہ ٹوٹل 694 لاشیں برآمد ہوئیں ۔ 510 افراد شہید ہوئے اور 179 کے ہلاکتوں کے محرکات سامنے نہ آ سکے۔ 111 افراد ریاستی فورسز کی عقوبت خانوں سے بازیاب ہوئے جبکہ کئی لاشوں کو بغیر شناخت کے مسخ ہونے کی وجہ سے دفنا دیا گیا۔
2016 کے سال پاکستانی فوج نے اپنی زمینی فوج کے ساتھ فضائیہ کا بھی استعمال جارحانہ انداز میں کرتے ہوئے ڈیرہ بگٹی،کوہلو سے جھالاوان ،سروان،مکران اور ساحل بلوچ تک زمینی فوجی آپریشنوں کے ساتھ جنگی جہازوں نے بلوچ آبادیوں پر آہن و آتش برسائے۔سینکڑوں گھروں کو لوٹ مارکے بعد جلایا گیا۔سی پیک کو لے کر اس روٹ پر مکمل آبادیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔ایک اندازے کے مطابق اس روڈ پر ایک لاکھ سے زائد خاندانوں کو انکے زمینوں سے بے دخل کر کے آئی ڈی پیز بنایا گیاجو آج در بدر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کو لے کر پاکستان نے اپنی پوری فوجی قوت کے ساتھ بلوچ آبادیوں پر یلغار کیا۔فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ ریاست نے تمام ٹولز جس میں نام نہادبلوچ پارلیمانی سیاسی جماعتوں و مذہبی شدت پسندوں اور مقامی سماجی برائیوں میں ملوث افراد کو بھی استعمال کیا ۔اسی سال ریاستی خفیہ اداروں نے پارلیمانی سیاست کرنے والے اپنے آلہ کاروں کے ذریعے بلوچ قومی جہد آزادی کو کاؤنٹر کر نے کے لیے ہر علاقے میں سماجی برائیوں میں ملوث افراد و منشیات فروشوں کو اکٹھا کر کے ڈیتھ اسکواڈ قائم کیے یا پہلے سے قائم ڈیتھ اسکواڈز میں ان کوضم کرنے کے ساتھ انہیں برائے راست پاکستانی خفیہ اداروں یا مقامی سیاست دانوں کے ماتحت لایا گیا اور ہر علاقے میں آزادی پسندوں یا ترقی پسندانہ سوچ رکھنے والوں کے خلاف بے دردی سے کاروائیاں کی گئیں اوریہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔دوسری جانب منشیات فروش و سماجی برائیوں میں ملوث افراد کو لے کر نیشنل پارٹی،بی این پی مینگل و عوامی ،ن لیگ،جمعیت نے ہر علاقے میں اپنے ڈیتھ اسکواڈ قائم کیے۔آئی ایس آئی اور ایم آئی نے ان کومقامی مذہبی شدت پسندوں سے لنک کرنے کے ساتھ،داعش ،طالبان کے مختلف دھڑوں،لشکر خراساں،لشکر جھنگوی کو مقبوضہ بلوچستان میں منظم کرانے کے لیے انہیں نہ صرف ٹھکانے فراہم کیے بلکہ مقامی مذہبی تنظیموں جیسے کہ جمعیت وغیرہ کے ذریعے انہیں افرادی قوت بھی فراہم کی گئی۔زہری ،خاران،پنجگورمیں باقاعدہ انہیں منظم کیا گیا اور بلوچ جہد آزادی کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
سیکولر بلوچ سماج میں مذہبی انتشار پھیلانے کے ساتھ قومی جہد کو کاؤنٹر کر نے کے لیے ایک منظم انداز میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے تمام ٹولز کو سال 2016 میں استعمال کیا اور اسکے ساتھ نام نہاد پارلیمانی سیاست دانوں کے ذریعے ہر تحصیل و علاقے میں بلوچ جہد و آزادی پسند رہنماؤں کے خلاف منظم انداز سے پروپیگنڈہ کو تیز کیا گیا۔ سال میں یہ انکی اہم چال اور حکمت عملی رہی کہ کیسے پروپیگنڈہ کر کے عوام کو جہد کے خلاف اکسایا جائے۔یقیناًآزادی پسند سیاسی و مزاحمتی تنظیمیں جن کے روٹ عوام تک ہیں کسی حد تک ان پروپیگنڈوں کو کاؤنٹر کرنے میں کامیاب ہوئے مگر مالک ،حاصل انکے ٹیم کی چالاک ریاستی آلہ کاروں کی یہ مہم آج بھی جاری ہے۔
2016 میں ایک اہم چیز یہ دیکھنے میں آئی کہ نیشنل پارٹی و دیگر پاکستانی جماعتیں بلوچ قومی جہد کاروں و تنظیموں کی چھوٹی سی غلطی کا بھی بھر پور فائدہ اُٹھا کر نہ صرف پروپیگنڈہ مہم تیز کرتے بلکہ آزادی پسندوں کو جانی نقصان پہنچانے میں کسی حد تک کامیاب رہے۔2016 کے سال ریاست نے تمام ٹولز قومی جہد کے خلاف پوری شدت کے ساتھ استعمال کیے۔اختر مینگل نے بھی اسی سال اپنی ڈیتھ اسکواڈ قائم کیے اور بلوچ جہد کاروں کو للکارا۔ ایک بات پر حیرانگی ہوتی ہے، دوسرا بھائی جاوید مینگل صاحب جو آزادی کے دعویدار ہے پھر بھی بھائی کے تابع ہے جبکہ اختر مینگل پاکستان زندہ باد اور بلوچ جہد کے خلاف پوری توانائی استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔دونوں بھائی بیرونی ملک ایک ہی دستر خوان پہ دکھائی دیتے رہتے ہیں۔کیا قوم کو بے وقوف نہیں بنایا جار ہا ہے؟یہ ایک اہم سوال ہے جس پر آزادی پسند کارکنوں کو بحث کرنے کے ساتھ ان لوگوں سے جواب طلب کرنا چاہئیے۔
2016 جہاں ریاستی بربریت اپنی عروج پر رہی،وہیں بلوچ قومی جہد کی پکار دنیا بھر میں اس وقت سنائی دی جب ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کو خبردار کیا کہ بلوچستان پہ جاری جبر و ظلم پہ وہ خاموش نہیں رہ سکتے۔مودی کی آواز نے نہ صرف پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ بلوچ قوم پہ جاری قابض کی جبر اور انکی آزادی کی جہد کو دنیا کے بیشتر ممالک کے ایوانوں اور عوام میں توجہ مبذول کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔وہ الگ بات ہے کہ بیرونی ممالک کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے بلوچ مودی کی آواز کی للکار کو پالیسی کی صورت میں اپنے حق میں نہ لا سکے اور کوئی موثر حکمت عملی سامنے نہ آ سکی۔
سیاسی تنظیم بی این ایم اور بی آر پی کی جانب سے اسی سال کے آخر میں قائدین درمیان رابطہ ہوا اور اشتراک عمل حوالے باہی رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا مگر تاحال دونوں تنظیم بظاہر ایک حکمت عملی واضح نہ کر سکے،جسکے تحت بلوچ قومی آزادی کی جہد میں عملی حکمت عملی کے تحت دوسرے ممالک میں سفارت کاری کی جا سکے۔امید کی جا سکتی ہے کہ دونوں تنظیمیں نئے سال میں اس حوالے بہتر پالیسی اپنائیں گے ۔مودی کے بعد امریکہ کے منتخب صدر ٹرمپ کی �آمد سے پوری دنیا کی اقتصادی و عسکری پالیسیاں بدلتی دکھائی دے رہی ہیں۔بلوچ کے پاس موقع ہے کہ وہ بیرونی ممالک میں مضبوط خارجہ پالیسی ترتیب دے کر ٹرمپ کے پالیسیوں کو اپنی وسیع قومی مفاد میں لانے کی کوشش کرے۔2016 میں افغانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک بھی پاکستان سے مُنہ موڈ چکے ہیں۔بھارت،بنگلہ دیش،نیپال،بھوٹان بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سارک ممالک سمیت دنیا کے کئی ممالک پاکستان کو الوداع کہہ چکے ہیں۔دوسری جانب مغرب پاکستان کی اسلامی شدت پسندپالیسیوں سے مکمل تنگ آ چکی ہے اور بلوچ کے پاس یہ موقع بہت اچھا ہے کہ بلوچ آزادی پسند قوم کی قربانیوں کا ادراک کرتے ہوئے ایک مضبوط و جامع خارجہ پالیسی کی جانب بڑھے اور باقاعدہ ایک ریاست کی پالیسیوں کی طرح آگے بڑھتے ہوئے دنیا کو باور کرائیں کہ بلوچ قومی آزادی کی جنگ نہ صرف بلوچ قوم کے لیے ہے بلکہ پورے خطہ کی آمن و آشتی کی جنگ ہے۔قابض ریاست کی تباہ کن اسلامی شدت پسند پالیسی اسکی موت کا باعث بن رہی ہے اور بلوچ لیڈران کو چائیے کہ وہ اپنی صفوں کی جانچ کے بعد موثر باہمی ٹیم تشکیل دے کر دنیا کو ریاستی جبر و بربریت سے آگاہ کرانے کے ساتھ اس خطے میں بلوچ سرزمین کی معاشی و عسکری اہمیت کے ساتھ سیکولر بلوچ قوم کی پالیسیوں و آئین کے تحت انھیں اپنے حق میں فیصلے لینے پر قائل کیا جا سکے۔چین ،روس کی اس خطے میں بڑھتی مداخلت،گوادر اقتصادی زون کے نام پر ایک نئے بلاک کی تشکیل،ایران،چین روس کی پس پردہ طالبان کی حمایت کے اسباب کو سامنے لانے کے ساتھ ان ممالک کی خطرناک حکمت عملیوں کو آشکار کیا جاسکے۔ساڑھے تین لاکھ سے زائد زرخیزمعدنیات سے بھری زمین ،گیارہ سو کلومیٹر بحرہ بلوچ کا وارث بلوچستان بیرونی ممالک میں کیوں اپنی سفارت کاری سے محروم ہے؟ بھارت جیسے ملک کا وزیر اعظم دوٹوک بیان بعد کیوں مُنہ موڑ لیتا ہے؟امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس،کینڈا،و دیگر ممالک بلوچ آزادی پسندوں کو پناہ تو دیتے ہیں مگر کیوں وہ بلوچ کی آزادی کے حق میں نہیں؟کیوں بلوچ پاکستانی مظالم و جبر کو دنیا کے سامنے دلائل و ثبوتوں کے بنیاد میں پیش کرنے میں ناکام رہا ہے؟کیا وجوہات ہیں کہ بلوچ 2016 میں سفارتی تعلقات کے ساتھ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کو جاری ریاستی بلوچ نسل کشی بارے قائل نہ کر سکا؟یہ مخلصانہ سوال ہیں 2016 کا سرسر ی جائزہ لینے کے بعد سال کے اختتام کے بعد تمام آزادی پسند سیاسی و مزاحمتی تنظیموں کو اپنی اپنی اعلیٰ سطحی اجلاس یعنی سی سی بلا کر 2016 کا مکمل جائزہ لینا چائیے کہ وہ کن اہداف کوپا سکے اور کن کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔وجوہات کو جانے کے ساتھ2017 کے لیے حکمت عملی ہر محاذ پر ضروری ہے ،خاص کر خارجہ امور پر۔
ایک بات ہر بلوچ کو ذہن نشین کرنا چائیے کہ ریاستی جبر،بلوچ نسل کشی میں 16 کے مقابلے اس سال مزید شدت آئے گی۔اسکی اہم وجہ چین،پاکستان اقتصادی راہداری کے ساتھ بلوچ سرمچاروں کے قابض فوج پر پہ درپے حملے ہیں جس سے ریاستی فوج کے حوصلے پشت دکھائی دے رہے ہیں۔ریاست اپنی قبضہ کومضبوط بنانے کے لئے مزید طاقت استعمال کرے گی۔اور سی پیک سے پاکستان کی زیست و موت منسلک ہے اس لیے اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام ٹولز کے ساتھ اور سنگین فوجی طاقت استعمال میں لائے گی۔ایسے میں آزادی پسندسیاسی تنظیموں کو چائیے کہ وہ روایتی سیاست سے بالا عملی طور پر سوچ اور نئے سال کے لئے تمام ممکنہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسی ترتیب دیں اور گزشتہ سال کی اپنی کارکردگیوں کا جائزہ لیں۔اسی طرح مزاحمتی تنظیموں کو بھی چائیے کہ وہ حالات کا جائزہ لیں اور نئے سال کے لیے حکمت عملیاں ترتیب دیں تاکہ دشمن ریاست کے تمام ٹولز کو سرزمین بلوچ پر سخت جواب دیا جا سکے۔
سال 2016 میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورحال کیسی رہی اس کی مکمل رپورٹ ہم نے ترتیب دی ہے جو پاکستانی عسکری اداروں کی جرائم کی وائٹ شیٹ ہے ۔
پاکستانی فوج نے سال2016 میں1146 آپریشن کر کے3534 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا ۔لوٹ مار کے ساتھ890 گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔اسی سال689 لاشیں برآمد کی گئیں۔179 افرادکی ہلاکت کے محرکات سامنے نہ آ سکے جبکہ کئی لاشوں کو بغیر شناخت کے مسخ ہونے کی وجہ سے دفنا دیا گیا۔510 افراد کوشہید کیا گیاجبکہ اسی سال111 افراد ریاستی تشدد خانوں سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔واضح رہے کہ لاپتہ افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے ۔
ماہانہ تفصیلات بھی جاری کی جارہی ہے تاکہ سند رہے ۔
جنوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فورسز نے93 آپریشن کر کے334 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا۔32 گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔28 افراد شہید کیے گئے۔
فروری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فورسز نے120 آپریشن کر کے334 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا۔8 گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔31 افراد شہید کیے گئے۔
مارچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فورسز نے60 آپریشن کر کے269 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا۔10گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔34 افراد شہید کیے گئے۔
اپریل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فورسز نے67 آپریشن کر کے101 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا۔20گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔72 افراد شہید کیے گئے۔12 افراد بازیاب ہوئے۔
مئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فورسز نے68 آپریشن کر کے 121 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا۔15گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ 23 لاشیں ملیں،جس میں 2 افراد کے ہلاکت کی وجوہات سامنے نہ آ سکے جبکہ21افراد شہید کیے گئے۔4 افراد بازیاب ہوئے۔
جون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فورسز نے61 آپریشن کر کے 124 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا۔98گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ 35 لاشیں ملیں،جس میں 20 افراد کے ہلاکت کی وجوہات سامنے نہ آ سکے جبکہ15افراد شہید کیے گئے۔2 افراد بازیاب ہوئے۔
جولائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فورسز نے46 آپریشن کر کے 161 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا۔42گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ 43 لاشیں ملیں،جس میں 35 افراد کے ہلاکت کی وجوہات سامنے نہ آ سکے جبکہ8 افراد شہید کیے گئے۔2 افراد بازیاب ہوئے۔
اگست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فورسز نے113 آپریشن کر کے 668 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا۔69گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ 157 لاشیں ملیں،جس میں 14 افراد کے ہلاکت کی وجوہات سامنے نہ آ سکے جبکہ143افراد شہید کیے گئے۔3 افراد بازیاب ہوئے۔
ستمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فورسز نے108آپریشن کر کے 368 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا۔364گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ 64 لاشیں ملیں،جس میں 26 افراد کے ہلاکت کی وجوہات سامنے نہ آ سکے جبکہ38افراد شہید کیے گئے۔4 افراد بازیاب ہوئے۔
اکتوبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فورسز نے154 آپریشن کر کے 269 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا۔119گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ 57 لاشیں ملیں،جس میں 32 افراد کے ہلاکت کی وجوہات سامنے نہ آ سکے جبکہ25افراد شہید کیے گئے۔24 افراد بازیاب ہوئے۔
نومبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فورسز نے119 آپریشن کر کے 384 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا۔68گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ 115 لاشیں ملیں،جس میں 30 افراد کے ہلاکت کی وجوہات سامنے نہ آ سکے جبکہ85 افراد شہید کیے گئے۔53 افراد بازیاب ہوئے۔
دسمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فورسز نے137 آپریشن کر کے 401 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا۔45گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ 35لاشیں ملیں،جس میں 20 افراد کے ہلاکت کی وجوہات سامنے نہ آ سکے جبکہ15 افراد شہید کیے گئے۔7 افراد بازیاب ہوئے۔
دسمبر کے ماہ کی تفصیلی رپورٹ۔جسے بی این ایم کی جانب سے شائع کیا گیا اسی صورت میں میگزین میں شامل کیا جا رہا ہے جو روزانہ حساب سے ترتیب دیا گیا ہے۔
بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات دلمراد بلوچ نے مقبوضہ بلوچستان میں دسمبر کے مہینے میں ہونے والے ریاستی مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین و گھمبیرصورتحال کی تفصیلات میڈیا کو جاری کرتے ہوئے کہا کہ دسمبر2016 کے مہینے میں فورسز نے137 آپریشن کر کے 401 افراد کو حراستمیں لیکر لاپتہ کیااور45گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔جبکہ 35 لاشیں برآمد ہوئیں،جس میں 20 افراد کی ہلاکت کی وجوہات سامنے نہ آ سکے جبکہ15 افراد شہید کیے گئے۔اس مہینے فورسز ہاتھوں لاپتہ کئے گئے 7 افراد بھی بازیاب ہوئے۔مرکزی سیکریٹری اطلاعات نے مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ نسل کشی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔انسانی حقوق کی صورتحال مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے بھی انتہائی گھمبیرتر ہے لیکن وہ میڈیا کی موجودگی میں دنیا کے سامنے آرہی جبکہ بلوچستان میں میڈیا بلیک آؤٹ کی وجہ سے انسانی حقوق کی گھمبیرتا صورتحال دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ پاکستانی فوج آئے روز آپریشنزکے نام پردرجنوں افراد کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیتی ہے جن کا بعد ازاں کسی قسم کا کوئی اتا پتہ نہیں ہوتا اورشدید تشدد بعد انکی لاشیں ویرانوں میں مل جاتی ہیں اور کئی لاشوں کو مسخ ہونے کی وجہ سے بغیر شناخت کے دفنا دیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ دسمبر کے ماہ بلوچ سرزمین پہ ہونے والے اعداد و شمار کی تفصیلات پارٹی کے پاس سند کے طور پر موجود ہیں۔اس میں بیشتر مقامی اخبارات میں آئے روز شائع ہوئے ہیں اور خود ریاستی فوج کے بیانات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جہاں لوگوں کو حراست بعد صرف لفظ مشتبہ کہہ کر بیان جاری کیا جاتا ہے۔افسوس کی بات ہے کہ آج تک کسی صحافی،یا میڈیا کے ادارے و انسانی حقوق کے تنظیموں نے ان سے یہ سوال کرنے کی ہمت نہ کی ہے کہ اتنے افراد کو مشتبہ کہہ کہ گرفتاریوں بعد انکے بارے تفصیلات کیوں سامنے نہیں لائے جاتے۔گذشتہ روز ریاست کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ خود ہماری جاری کردہ سال بھر کے ریکارڈ کو سچ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے جس میں انہوں نے دو سالوں کے دوران5032 آپریشن،17083 افراد کے حراست کا اعتراف کیا ہے۔مگر کسی انسانی حقوق کے تنظیم و صحافتی ادارے نے آج تک قابض ریاستی فورسز سے یہ سوال کرنے کی ہمت نہیں کی کہ یہ سب لوگ کون ہیں اور اب کس حال میں ہیں۔؟دلمراد بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں میڈیا بلیک آؤٹ کی افسوسناک اور منافقانہ وصورتحال یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا ’’جیو ‘‘ کی ٹیم جنگ زدہ شام کی صورتحال کی کوریج کرنے کیلئے شام پہنچ جاتی ہے لیکن اپنے سرآنے میں موجود بلوچستان میں جانے کی جسارت نہیں کرتی ہے ۔اس بات سے عیاں ہے کہ ناصرف ریاستی سول عسکری مشینری بلکہ میڈیا ،انسانی حقوق ادارے سمیت و دیگر سیاسی وسماجی ادارے ریاستی ہمنوا ہیں اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال اور بلوچ نسل کشی میں ریاست کے ساجھی دار ہیں جومحض لفاظی میں انسانی حقوق کے علمبردار بنے ہیں۔
دسمبر کے ماہ بلوچستان میں فورسز کے انسانی حقوق کی پا مالیوں کی تفصیل یوں ہے۔
یکم دسمبر
-نوروز ولد عبدالغفور کو تمپ بالیچہ سے اغوا کیاگیا۔
-ملان جھاؤ سے فضل ولد پنڈوک، لیاقت ولد نزیر، مولابخش ولد شمبو، بشیر ولد حیدر، اور تاہیر ولد محمد عمر اور جھاؤ کوٹو سے امان اللہ ولد کسو کو فوج نے اغوا کرکے لاپتہ کیا۔
-گوہرگ حسین بازار دشت ضلع کیچ سے فورسز نے برکت ولد جیئند ، ایاز ولد پلان، درویش ولد بیت اللہ، رحیم ولد للا، رستم ولد حاجی در محمد، عارف ولد تاج محمداغوا اور لاپتہ
-نوشکی ،قلات ، خاران ، مستونگ اور منگچر کے پہاڑی علاقوں میں گذشتہ تین دنوں سے پاکستانی آرمی کی زمینی و فضائی آپریشن ۔
منگل کو پنجگور اور ڈیرہ مراد جمالی میں فورسز نے آپریشن کر کے 3افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔تینوں افراد کی شناخت نہ ہوسکی ۔
آوارانکے علاقوں تیرتیج،بزداد، گورستانی،قاسمی جو،کہن زیلگ، میشود میں پاکستانی زمینی فوج کا آپریشن، گھروں کو نذر آتش کرنے کے ساتھ، ایک شخص کی شناخت صابر ولد حاصل سے ہوئی ہے جسے فورسز نے لاپتہ کیا ہے۔ آرمی کے اہلکاروں نے تیرتیج اسکول پر قبضہ کر رکھا ، جہاں ایک نئی منی کیمپ تعمیر کی گئی۔
2 دسمبر
گوہرگ دشت ضلع کیچ میں آپریشن اور اغوا جاری رہا۔ ، نصیر ولد رحیم بخش، سلیم ولد سفر، طارق ولد سفر، مجیب ولد جمیل، زاہد ولد رحمت، اور سفر ولد جیئند، اور دشت کپکپار سے حافظ ولد فیض محمد اور رفیق ولد فیض محمداغوا اور لاپتہ۔
کیچ کے علاقے تمپ بالیچہ میں آپریشن کرکے ایک شخص کو لاپتہ کیا گیا۔
بروز ہفتہ پاکستانی فوج نے ضلع کیچ کے علاقے دشت درچکوہ میںآپریشن کرکے9افراد کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا جن میں ایک باپ اوراس کے تینوں بیٹے بھی شامل ہیں جنکی شناخت 60سالہ داد محمداور انکے تین بیٹے فضل ،بخشی اور حاصل کے ناموں کی گئی جبکہ باقی 5افراد کی شناخت نہ ہوکی۔
مستونگ کے نواحی علاقے کلی ساتکزئی میں پاکستانی فوج نے آپریشن کرکے ایک شخص کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیاجنکی شناخت نہ ہوسکی۔
بلیدہ میناز سے فورسز نے گیارہ افراد کولاپتہ کیا۔
پنجگور و تربت سے ۶ افراد لاپتہ۔
کچلاک سے دو ڈھانچہ نما لاشیں برآمد،جنکی شناخت نہ ہو سکی ۔
3 دسمبر
مشکے النگی سے امیت خان ولد عیسی اور گل جان ولد عیسی اغواجبکہ ایک کی شناخت نہ ہو سکی۔
دشت آپریشن: درچکو سے حاصل ولد داد محمد، فضل ولد داد محمد، بخشی ولد داد محمد، اور محمد بخش ولد ابراہیم اور دشت سلوک بازار سے خد ا بخش ولد جلال، اور لعل بخش ولد وشدل اغوا اور لاپتہ۔
کوئٹہ میں فورسز کا آپریشن کئی افراد لاپتہ ہونے کی اطلاعات۔
4 دسمبر
دشت آپریشن : ڈل بازار سے عید محمدولد اسماعیل اور منیر ولد محمد امین، بل کراس سے ندیم ولد بشام، ڈلسر سے عاقل ولد سبزل اور طارق ولد پیربخش اغوا کے بعد لاپتہ۔
کردگاپ میں4نوجوانوں شعیب سرپرہ ولدمیر غلام ربانی سرپرہ ،مشتاق ولد ٹکری سیف اللہ سرپرہ،ابو بکر ولد،حاجی محمد بخش سرپرہ اور غلام رسول ولد مولابخش نامی چارفٹبالروں کو حراست میں لیکرنامعلوم مقام پر منتقل کردیا جنکی گرفتاری کیخلاف ،خواتین و بچوں کا احتجاج ، کوئٹہ تفتان شاہراہ بلاک کیا گیا۔
کاہان میں فورسز کا آپریشن شفیع شیرانی،سفید علی شیرانی قتل،۱۵ خواتین و بچے حراست بعد لاپتہ کیے گئے۔
مستونگ ایک شخص حراست بعد لاپتہ۔
مند سورو سے فورسز نے پانچ افراد کو حراست بعد لاپتہ کر دیاہے۔
5 دسمبر
 آواران کے علاقے بزداد اور مالار سے پاکستانی فوج نے متعدد افرادکوتشددکا نشانہ بناکرانکے شناختی کارڈلے گئے جبکہ4افراد کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔ جبکہ مالار سے مزنیں کلی جانے والے لوگوں جن میں خواتین و بچے بھی شامل تھے کو تشدد کا نشانہ بنایااور حیر محمد ولد نور محمد ،فقیر جان ولد سید محمد اور الہٰی بخش ولد فتح محمد اور صابر ولد فتح محمدنامی 4افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔
کیچ سے منسلک دشت میں پاکستانی فوج کا آپریشن ، کپکپار ، گوہرگ حسین بازار ،کمبیل ،بل کراس میں فوج کا آبادیوں پر حملہ ،5افراد حراست بعد لاپتہ ، ڈسپنسری میں توڑپھوڑ بعد ادویات کو لوٹ لیا گیا۔ چادرو چاردیواری کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے خواتین وبچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور گھروں میں توڑ پھوڑ کرکے قیمتی اشیا لوٹ لئے جبک۔ فوج نے کپکپار پھل کلات میں یاصف سفر ،مرادخان سفر اور جاوید سفر نامی بھائیوں جبکہ کمبیل سے بابو سید اور گوہرگ حسین بازار سے جمیل شکاری رحیم نامی 5افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔واضع رہے کہ جمیل شکاری رحیم بخش کے دو بھائیوں نصیر اور خلیل کو 2نومبر کو حراست میں لیکر لاپتہ کیاگیاتھا اسی طرح بابو سید نامی شخص کے بیٹے کو فوج اور خفیہ اداروں کے لوگوں نے چار ماہ قبل گوادر سے حراست میں لیکر لاپتہ کیاتھا جو تاحال لاپتہ ہیں۔فوج نے کمبیل میں علاقے کے واحد علاج معالجے کی کی ڈسپنسری پر حملہ کرکے دروازے و کھڑکیاں توڑ دیں او ر اوپی ڈی رجسٹرڈ سمیت ادویات کو لوٹ کر ساتھ لے گئے۔
6 دسمبر
کو ئٹہ ریڈیو اسٹیشن کے قریب ایک نامعلوم شخص کی لاش برامد
چمن سے تیرہ سالہ اسد ولد ہارون کی لاش برامد۔
7 دسمبر
پاکستانی فوج کا بارکھان میں آپریشن ، 11افرادحراست بعد لاپتہ کیے۔
**کوئٹہ پولیس نے ایک نامعلوم شخص کی لاش ریڈیو اسٹیشن کے قریب سے برآمد کر لی ،شناخت نہ ہو سکی ہے۔
بروز بدھ علی الصبح پاکستانی فوج نے دشت کے علاقوں شولی اورجمنی کی آبادیوں کا محاسرہ کرکے گھر گھر تلاشی لی،خواتین و بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔گھروں میں توڑ پھوڑ کرکے قیمتی سامان سمیت 2گاڑی اور4موٹراسائیکل قبضے میں لے لیے۔ جبکہ21افرادکو قطار میں کھڑا کرکے بعدا زاں انہیں اپنے ساتھ لئے جن کا تا حال کوئی اتا پتہ نہیں ہے ۔حراست میں لئے گئے 21افراد کی شناخت نذیر ولد حاجی حیاتان،اللہ بخش ولد نبی بخش،زاہد ولد اللہ بخش،بہرام ولد رشید ،آصف ولد مراد جان،یاسر ولد عبداللہ،آصف ولد داد محمد،بشیر ولد حاجی حمزہ،ابراہیم ولد خان محمد،مراد محمد ولد ابراہیم،جاوید ولد محمد مراد،ناصر ولد حاجی کریم بخش،عمر ولدجان محمد،سراج ولد حاجی واحد بخش،محمد کریم ولد شمبے،یاسین ولد نبی بخش،مجید ولد حسن،نوید ولد حاجی عبدالرحیم ،عبداللہ ولد دین محمد،مومن ولد حسن ،نوید ولد حاجی عبدالرحمان،عمران ولد باقی کے ناموں سے ہوئی ہے۔
8 دسمبر
 فورسز نے مشکے کے علاقے نوکجو ریندک کو محاصرے میں لیکر گھر گھر تلاشی لی ۔قیمتی سامان لوٹ لئے ،گھرو ں کے دروازے و کھڑکیاں توڑدیں ۔خواتین بچوں کو ہراساں کرنے کے بعد حبیب ولدفتح محمد، نورا ولد مہیم خان، منیر ولدیوسف اورسلام ولد ملا حسو نامی 4افراد کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔
کولواہ کے علاقے گند چائی میں فوج کے ہاتھوں لاپتہ کئے گئے افراد میں 7کی شناخت رشید ولدسردو، دلمراد ولدصوالی، جمال ولدہیشو، شعیب ولدعظیم، منیر ولد امام بخش، عطاولدرمضان اورعقیلولد موسیٰ کے ناموں سے ہوئی ہے۔
جمعرات کے روزدشت کے قصبوں مالارشم ، ریکچائی ، گند چائی ، بنی ، گوشانگامیں آرمی نے گھر گھر تلاشی کر کے خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا،کلینک و دکان سمیت 5گھر نذر آتش ، 25افراد کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا،جن کی شناخت عبدالرشید ولد عبدالرحمان ، شعیب ولد محمد عظیم ، منیر ولد امام بخش، اللہ داد ولد شفیع محمد ، حکیم ولد موسیٰ، سلیم ولد غلام حسین ، لالو ولد اللہ بخش ،تقدیر ولد ابراہیم ،فضل ولد حشو،جمال ولد حشو،دلمراد ولد صوالی ،بشام ولد بورو ، محمد انور ولد خدا بخش،ملا محمد بخش کا بیٹا،لالو ولد محمد ،رمضان ولد در محمد ،الطاف ولد حاصل ،شاکر ولد میار،جمال ولد عطا محمد ،عطا ولد رمضان ،اقبال ولد مراد ،ظریف ولد خدا بخش،جنگیان ولد خدا بخش،قادر بخش ولد عطا مراد،پٹھان ولد فیضو کے ناموں سے ہوئی ہے۔
9 دسمبر
کوہ پشت مند سے نصیر ولد کلمیر اغوا۔
دالبندین سے لاش برآمد،شناخت نہ ہوسکی۔
کوئٹہ فائرنگ سے دو افراد ہلاک۔
10 دسمبر
کلگ ڈن مند سے عمران ولد داد محمد اغوا اور لاپتہ۔
وڈھ مسلح افراد کی فائرنگ سے رمضان نامی شخص ہلاک ۔ایک زخمی،محصوف خان نامی شخص کو حملہ آور ساتھ لے گئے۔
کیچ کے علاقے ڈنڈار میں پاکستانی فوج نے آپریشن کرکے چادرو چاردویاری کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے، گھر گھر تلاشی و خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
مند گیاب سے فورسز نے تین افراد کو حراست بعد لاپتہ کردیا۔
11 دسمبر
رودبن تمپ سے غلام جان ولد حاجی میار فوج کے ہاتھوں اغوا۔
ڈیرہ بگٹی کوہلو میں آرمی کا زمینی آپریشن،گھروں میں لوٹ مار کے بعد کئی گھر نذر آتش
کیچ کے علاقے آبسر سے فورسزنے نصرت ولد ھبیب نامی شخص کو اغوا کر لیا۔
12 دسمبر
ڈیرہ بگٹی میں نصیر بگٹی اور شہباز بگٹی کو قتل کیا گیا۔
مند کے علاقے بلو میں پاکستانی فوج نے علی الصبح حاجی آدم کے گھروں کا محاصرے کرنے کے ساتھ گھروں میں لوٹ مار کی اور خواتین کو حراساں کرنے کے ساتھ انکی بے حرمتی کی اور پانچ افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا جنکے شناخت خالد ولد آدم، ماسٹر خداداد،فضل ولد عبدالرحیم،عقیل ولد ماسٹر خداداد، امجد ولد دوشمبے سے ہوئے۔
آواران فائرنگ سے غلطی سے دکاندار محمد بخش نامی شخص جاں بحق
13 دسمبر
دشت بل کراس فورسز کا آپریشن، اسکول ٹیچر ماسٹر اکبر ولد ہیبتان،یونس ولد غلام شاہ رشید ولد عثمان فورسز کے ہاتھوں لاپتہ۔
بلیدیہ فورسز کا آپریشن۵ افراد حراست بعد لاپتہ۔
کوئٹہ نامعلوم لاش برآمد۔
 نصیر آبادی بارودی سرنگ دھماکہ راہگیر ولی داد نامی شخص ہلاک۔
14 دسمبر
بروز منگل کو فوج نے دشت کے علاقوں دِزدِر اورکلیرو میں آپریشن کرکے گھر گھر تلاشی لی ۔چادرو چاردیواری کی تقدس کو پامال کرکے خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔جبکہ گھروں کی قیمتی اشیا لوٹ لئے اور مکانوں کے دروازے و کھڑکیاں توڑ دیں ۔ فوج نے علاقے کے 23افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔جنکی شناخت سمیر ولدالیاس، ولید ولدالیاس، منیر ولدالیاس، حامدولدالیاس،حمیدولدمیران، اسلم ولدرسول بخش، الہٰی بخش ولددوشمبے، حلیف ولددوشمبے، پْھلان ولدبدل، شبیر ولدبدل، عزت ولدعلی محمد، صادق ولدشاہ دوست، تارق ولدغلام، خدابخش ولدمراد جان، خالد ولدسلیمان، حبیب ولدغلام، اعزیز ولد غلام، لیاقت ولدبہرام، نصیر ولدسخیداد، راشدولدسخیداد، بیت اللہ ولدعبداللہ، مجاہدولدعبّاس رہائشی دِزدر اوروسیم ولدمحمد بخش رہائشی کپکپارکے ناموں سے کی گئیں۔
پسنی وگرد نواع میں فوجی نقل و حرکت میں تیزی،آپریشن کا آغاز۔
آواران کے علاقوں ،زومدان ،پیراندر،کُچھ،زیلگ ،گزی میں پاکستانی آرمی کی پیدل فوج نے آبادیوں کا محاصرہ کر کے لوٹ مار کی۔
15 دسمبر
کندڈی سے مسخ لاش برآمد۔
 نصیر آباد خاتون کی بیس روز پرانی نعش برآمد،انتظامیہ نے بغیر شناخت کے لاشوں کو لا وارث کہہ کر دفن کر دیا۔
آواران کے مختلف علاقے فورسز کے محاصرے میں، آپریشن کا آغاز۔
ڈیرہ بگٹی فورسز نے پیش امام چمن بگٹی کو گاڑی سے کچل کر قتل کر دیا۔
ضلع آاواران کے مختلف علاقوں پیراندر زرانکولی،سہریں دمب،پونڈوک،گرائی چیل،گزی چیل، سوروک گڈوپ ،زومدان گزی، کریم بکش بازار اور اعظم گوٹھ پاکستانی فوج کا آ پریشن۔
مشکے کے علاقے نوکجو میں پاکستانی فورسز نے شہید شاہ جی کے گھر پر دھاوا بول کر گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا اور شہید کے بھائی شاہ نواز کو حراست بعد ساتھ لے گئے واضح رہے کہ30 جون 2015 فورسز کے آپریشن میں شاہ نواز کے بھائی شاہ جی شہید ہوئے تھے۔
16دسمبر
بل نگور دشت سے بلوچ نامی شخص اغوا۔
مند سورو میں پاکستانی فوج نے بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے شہید بانی و قائد چےئرمین غلام محمد بلوچ اور انکے رشتہ داروں کے گھروں پر دھاوا بول کر لوٹ مار کی ۔بعدازاں گھروں کو نذر آتش کیا گیا اور ایک فرزند ظہور بلوچ کو شہید کرنے کے ساتھ۳افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیاگیا۔ جنکی شناخت امام حسن،سلمان ولد ڈاکٹر مجید، یار محمد ولد حاجی رحمت اللہ کی ناموں سے ہوگئی ہے۔
17 دسمبر
دشت بل کراس سے غنی ولد موسی اغوا۔
کیچ کے علاقے گومازی کے پہاڑی علاقہ انجیر خان سے3لاشیں برآمد ، جنکی شناخت بلوچ عرف نوکاپ ہیڈ ماسٹر محمدحْسین، بیبگر حرف لالہ ندیم ہیڈ ماسٹر محمدحْسین،مْدیر حرف باہڑ ولد حاجی عبدالرحمان کے ناموں سے ہوگئی جو گومازی کے رہائشی تھے ۔
ضلع کیچ کے علاقے مند کہنک کے رہائشی آصف ولد ماسٹر انور کو کراچی میں فورسز نے انکے گھر سے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا ہے۔
 12دسمبر کو رات 3بجے پاکستانی فورسزہاتھوں لاپتہ کیے جانے والے 5افراد ماسٹر خداداد، خالد آدم، امجد دوشمبے، عقیل خداداد اور فضل عبدالرحمن کی بازیابی کیلئے اہلخانہ نے مند میں ایف سی کیمپ پر دھرنا دیا جس سے ماسٹر خداداد ،عقیل خداداورفضل عبدالرحمن کو دوسرے روز چھوڑ دیا گیا جبکہ خالد آدم اورُْ امجد دوشمبے تاحال لاپتہ ہیں اور ان کے خاندان کو انکی زندگیوں کے حوالے سے شدید خدشات لاحق ہیں۔
خضدار سے خاتون سمیت 2افراد کی گولیو ں سے چھلنی لاشیں برآمد۔ لاشوں کی شناخت جمعہ خان اور مسماۃ(ف) کے نام سے کی گئیں۔
18 دسمبر
مند سورو سے مجید ولد واحد بخش اغوا۔
دشت سے فضل ولد محمد عمراغوا
پاکستانی فوج کا بی ایس او آزاد کے اسیر رہنما مرکزی سیکریٹری اطلاعات شبیر بلوچ عرف لکمیر کے گھر و گاؤں پر حملہ،لوٹ مار ،لوگوں پر تشدد۔
 گومازی میں پاکستانی فوج کا آپریشن ، ۔گھر گھر تلاشی کر کے خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ قیمتی سامان لوٹ لئے اور 4افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ۔ جن میں دو کی شناخت صدام ولد الہٰی اورزبیرولد داد محمد کے ناموں سے ہوگئی جبکہ دو کہ شناخت نہ ہوسکی ۔ پیاروں کی گرفتاری و گمشدگی کیخلاف اہلخانہ نے فورسزکے ملانٹ کیمپ کے سامنے دھرانا دیکر احتجاج کیا گیا۔
19 دسمبر
چیدگی آواران سے نصیر ولد غلام قادر اغوااور لاپتہ۔ میری کلگ تربت سے نوربخش اغوا۔
ناگاہو ضلع بولان سے 4 اپریل کو دوران آپریشن پاکستانی فوج کے ہاتھوں اغوا ہونے والے صوفی مری، ثنااللہ اور سفیر کی لاشیں برآمد۔
ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیرکوہ ،پاتر، ہن، بوبی اور کنڈور شامل میں پاکستانی فوج کا آپریشن،درجنوں گھر نذر آتش ،4افراد حراست بعد لاپتہ جنکی شناخت نہ ہوسکی۔
20 سمبر
قمبرانی روڈ کوئٹہ سے نامعلوم شخص کی لاش برآمد۔
تمپ بالیچہ سے سلیمان ولد گاجی خان اور ظفر ولد قادر بخش اغوا اور لاپتہ ۔
تربت موبائل دکان سے فورسز نے چار افراد کو حراست بعد لاپتہ کر دیا۔
کیچ میرانی ڈیم سے فورسز نے افضل نامی شخص کو لاپتہ کردیا۔
کیچ اقبال مارکیٹ سے فورسز نے 6 افراد کو لاپتہ کر دیا۔
21 دسمبر
خیر باد کیچ سے لعل جان ولد عادل فوج کے ہاتھوں اغوا۔
ْتربت مچھلی مارکیٹ سے فورسز نے ایک شخص کو حراست بعد لاپتہ کر دیا۔
پنجگور ایرانی فورسز کی گولہ باری سے خاتون سمیت تین افراد ذخمی۔
تربت کے علاقے گوگدان سے ناقابل شناخت لاش برآمد۔
22 دسمبر
12 دسمبر کو اغوا ہونے والے خالد ولد آدم کو پاکستانی فوج نے دوران حراست قتل کرکے لاش ہسپتال پہنچادی۔
 آواران کے علاقے پیراند،زیارت ڈن و گردو نواح میں پاکستانی زمینی فوج کا آپریشن ،گھروں میں لوٹ مار ۔
23 دسمبر
نوشکی لوکل گاڑی ڈرائیور اور دکاندار فورسز کے ہاتھوں لاپتہ، چار روز قبل دکاندار کریم بخش نوشکی بازار سے اپنے دکان کیلئے راشن وغیرہ لیکر مقامی پک آپ میں سوار ہوا اتنے میں ایف سی اور خفیہ ادارو ں نے انھیں اتارا اور پک آپ ڈرائیور کوبھی حراست میں لے کر لاپتہ کر دیا۔
24 دسمبر
کیچ کے علاقے ڈبوک میں پاکستانی آرمی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے آبادی پر دھاوا بول کر شریف درویش نامی شخص کو حراست بعد لاپتہ کردیا اور خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
 کیچ کے علاقے بلیدہ مہناز میں عبداللہ نامی شخص کے گھر پر حملہ کرکے خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ عبداللہ ولد حسن ، اکرام عبداللہ ،پلان عبداللہ اور جہانزیب ایوب نامی 4افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
کیچ کے علاقے گیبن میں پاکستانی فوج نے کمال گزی نامی شخص کو راستے میں حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔کمال گزی کے اہلخانہ کے مطابق کمال گزی گذشتہ رات اپنے ایک دوست کے شادی کے بعد گھر واپس آرہے تھے کہ گیبن کراس کے مقام پر پاکستانی فوج نے اسے روکا اور شناخت کے بعد حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔
26 دسمبر
کوئٹہ نیو کاہان سے سمند خان ولد حسن خان مری اغوا
دشت آپریشن : جگین سے سخی بخش ولد مراد بخش اور گوہرگ ڈک سے لیاقت ولد اسحاق اور الہی ولد اسحاق پاکستانی فوج کے ہاتھوں اغوا اور لاپتہ۔
پاکستانی فوج نے آواران کے مختلف علاقوں تیرتیج،ہارونی ڈن ، سیاہ گزی،کہن زیلگ،زیارت ڈن ،ریکین،گوہرگ ڈک، جگین ،ریک کہیرین اور گورستانی میں آپریشن کیا، ریکین میں محمد جا ن نامی شخص کے گھر کو بھی محاصرے میں لیاگیا ہے جہاں خواتین و بچوں پر تشدد و لوٹ مار کی گئی ۔ گوہرگ ڈک سے فوج نے دو بھائیوں کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیاجنکی شناخت لیاقت ولد اسحاق اور الٰہی بخش ولد اسحاق کے ناموں سے ہوگئی جبکہ کیچ کے علاقے دشت جگین میں فور سزنے آپریشن دوران ایک سخی بخش ولد مراد بخش نامی شخص کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے ۔
 تربت میں ایئر پورٹ ایف سی چوکی پر اہلکاروں نے ایک وین گاڑی پراندھادند فائرنگ کی جس سے وین ڈرائیورامین نامی شخص شدید زخمی ہوگیا ۔
کیچ کے علاقے آبسر چیک پوسٹ پر اہلکاروں کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے نصرت ولد حبیب اللہ نامی شخص جو آبسر کا رہائشی ہے بازیاب ہوکراپنے گھر پہنچ گئے ۔
27 دسمبر
اٹھارہ ستمبر کو دشت جان محمد بازار سے فوج کے ہاتھوں اغوا ہونے والے لیاقت ولد شہداد، عبدالحئی ولد اقبال، جابر ولد عبدالرشید اورشاہو ولد سید محمد بازیاب ہوئے۔
ماشی آواران سے حامد علی ولد عبداللہ کو فوج نے اغوا کرلیا۔
 تمپ کے علاقوں کوہاڑ اور پل آباد میں آپریشن کرکے فورسز نے 4افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے ۔حراست میں لئے گئے افراد کی شناخت زاہد ولد خدا بخش، صادق ولدملک داد اورسلام ولد اسلم رہائشی کوہاڈ جبکہ عبید ولد فاضل رہائشی پل آباد کے ناموں سے ہوگئی ہے ۔
 کوئٹہ نیو کاہان کے رہائشی عزیز خان ولد شیر خان اور جماند خان ولد حسن خان لنک روڈ ہزار گنجی کوئٹہ سے بازیاب ہوگئے۔جنہیں 3ستمبر 2016میں فورسز نے کوئٹہ سے حراست میں لیکر لاپتہ کیا تھا۔
کیچ کے علاقے دشت جو گوادر سے ملحق ہے میں اب تک 8فوجی کیمپیں تعمیر کی جاچکی ہیں جبکہ گذشتہ دنوں سیاہلو جالبار کے مقام پر ایک اور کیمپ اضافہ کرکے ان کی تعداد 9کردی گئی ہے ۔

واضع رہے کہ کیچ کا علاقہ دشت جو گوادر سے ملحق ہے اور سی پیک کے روٹ پر واقع ہے ۔
28 دسمبر
 آواران کے علاقے پیراندر میں ترونگوڑی کے مقام پر واقع احمد پیر زیارت کو مسلح مذہبی شدت پسند ملاؤں نے نذر آتش کر دیا۔
ڈیرہ بگٹی ایک شخص قتل۔
29 دسمبر
کلاتک ضلع کیچ میں کمسن بچی زینب بنت سلمان کو پاکستانی فوج فائرنگ کرکے ہلاک کیا۔
دشت آپریشن: کاشاپ دشت سے نادل شاہ ولد داد کریم، منیر ولد رسول بخش، دلیپ ولد گنگزار، شوکت ولد ناصر، ندیم ولد قادر بخش، محمد نور ولد دوست محمد، بالاچ ولد داد رحمان، نسیم ولد برکت، ملک ولد شیر محمد، عزیز ولد سخی داد، اور بہادر ولد علی حسن فوج کے ہاتھوں اغوا اور لاپتہ۔
آواران لباچ سے غلام جان اغوا۔
مند ڈلسر سے سعید ولد عبدالحلیم اغوا۔
ڈیرہ مراد جمالی،تمپ،و قلعہ سیف اللہ میں آپریشن13 افراد حراست بعد لاپتہ کے گئے۔
30 دسمبر
تمپ گومازئی سے سہیل ولد بلال اور عبدالسلام اغوا اور ڈیرہ بگٹی سے ایک شخص اغوا جس کا نام معلوم نہیں ہوسکا۔
قلات فورسز نے سلمان بلوچ کو شہید کر دیا۔
دشت آواران سی پیک روٹ پر فورسز کا آبادیوں پر حملہ،4 افراد حراست بعد لاپتہ ۔
***

 

© 2013 Daily Sangar. All Rights Reserved.
Email: [email protected], [email protected]