• Sangar English
  • رابطہ
  • آر کائیو
    • خبریں
    • مقبوضہ بلوچستان
    • انٹرنیشنل
    • جنوبی ایشیاء
    • کھیل و فن
    • سائنس اور ٹیکنالوجی
    • اداریہ
    • مضامین
    • تجزیہ
    • رپورٹس
    • انٹرویوز
    • بلوچی مضامین
    • براہوئی مضامین
    • شعر و شاعری
  • تصاویر
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیوز
    • آڈیوز
  • کتابیں
  • سنگر میگزین
  • انٹرویوز
  • مضامین/ کالمز
  • اداریہ
  • پہلا صفحہ

تازہ ترین خبریں

اختر مینگل کا راجن پور وڈی جی

Dec 16, 2019, 11:30 am

واشنگٹن و کابل مابین افغانستان

Dec 16, 2019, 11:28 am

چین نے امریکی مصنوعات پر ٹیرف

Dec 16, 2019, 11:25 am

آب و ہوا کی تبدیلی حوالے عالمی

Dec 16, 2019, 11:24 am

ترکی نے لیبیا کی قومی وفاق حکومت

Dec 16, 2019, 11:21 am

گوگل ارتھ اب زمین کے 98 فیصد رقبے

Dec 16, 2019, 11:20 am
More...

لیاری،ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت !!! ...دل مراد بلوچ

Nov 16, 2017, 6:10 pm


بلوچ قومی سیاست ونفسیات میں لیاری ایک ایسا گوشہ ہے جس کے اثرات ونقوش انمٹ وابدمان ہیں مگرآج ہمارے پاس صرف شاندار ماضی کے قصے ہیں ،حال کس حال میں ہے اور مستقبل کس حال میں ہوگابظاہرایک بے یقینی کی کیفیت میں ڈھلی دھند لی سی منظر ہے جس میں لیاری شدیداضطراب میں اچھے دنوں کی امیدمیں بے بسی سے کروٹیں بدل رہاہے اس پریشان کُن سوال پرہردردمند بلوچ ضرورسوچتا ہوگا مگراس کا جواب ہمیں لیاری کے تنگ و تاریک گلیوں کے کشادہ دلوں میں ہی ملے گاشرط اس دل میں اُترنے اوراسے سمجھنے کی ضرورت ہے ،لوگ اس کے لہورستے زخموں کو دیکھ کر پرے ہٹ جاتے ہیں مبادہ یہ اُن سے مسیحائی کا طلب گار نہ ہوں،لیکن انہیں معلوم نہیں لیاری اپنا مسیحاآپ ہے یہ منتظرِ مسیحانہیں بلکہ ہزاروں کا مسیحا بن سکتا ہے،لاکھوں میں زندگی پھونک سکتاہے ،لیاری زندگی اورتوانائی کا اَمرت دھارا ہے بس وقت کے شیطانی قوتوں نے نوآبادیاتی فریب کاریوں سے اس چشمہِ حیات کو اپنے ہی باسیوں کے زہر ہلاہل کی مانند بنادیاہے۔ایک وقت تھاکہ بلوچ قومی تحریک کامسافرجب کراچی کا رخ کرتا تو مسکن لیاری ہی تھا،تپتی صحرا کے مسافرکے لئے حوض کوثر تھا۔وہاں اُسے سیاسی آکسیجن ملتا ،وہاں اسے علمی توشہ ملتا ،وہاں اسے زندگی بخش خیالات کا سیلِ رواں ملتا ۔۔۔اورآج منظر کچھ اس طرح بن چکا ہے کہ لیاری کے چشمہ حیات پرمکڑیوں نے جالے تنے ہیں جن پر خون کے چھینٹے ہیں اس لئے آج کا لیاری ایک ایسی عکس پیش کرتا ہے جس میں پانی سراب کی مانند نظرآتاہے اوراس سے دھوکہ کھاکرلیاری کے بھرے حوض سے پیاس بجھانے کے بجائے ہم پیاسے رہ جاتے ہیں العطش۔۔۔العطش
لیاری نے اچھے دن دیکھے اور برے دن دیکھ رہاہے ۔علم و دانش اور سیاسی وسماجی بصیرت کا مرکز آج ماضی کے ناتمام قصے معلوم ہوتے ہیں اب بھی اپنی تکمیل کی منتظر ہیں ۔ایک وقت تھا کہ اصل صورت حال سے ناواقف آدمی اگر لیاری کی ظاہری تصویر دیکھتا تو شاید بہت خوش ہوتا کہ آدمی کو یقین ہوجاتا کہ لیاری محتاج نہیں مختیار بن جائے گا۔لیاری بے بس لاچارنہیں بلکہ بے بسوں کا چارہ گر بن جائے گاکیونکہ یہاں کے نوجوان بظاہر موت پر اختیار حاصل کرچکے تھے ،موت کا ڈراور خوف بالکل غائب ہوچکاتھا،یہاں نوجوان موت سے اس طرح کھیل جاتے جس طرح ماضی میں فٹ بال کھیلا جاتاتواس حقیقت کے پیش نظرکہ جب نوجوان موت پر اختیار حاصل کریں تو وہ اپنی قوم و سماج کے لئے آہنی دیوار بن جاتے ہیں،ہر مصیبت سے بھڑ جاتے ہیں مگر اپنی قوم و سماج کا بیڑہ پارہی اتارتے ہیں لیکن ڈاکٹر نذر اللہ کے بقول ’’کتاب بندوق کی رہنما ہے‘‘ اور کتاب کی رہنمائی نہ ہو تو بندوق صرف اور صرف تباہی کا سامان ہے جو صرف موت دے سکتا ہے زندگی نہیں ،جوصرف تباہی دے سکتا ہے تعمیر نہیں ،جوصرف رشتے توڑتاہے جوڑتانہیں ،کتاب اورنظریے کے بغیر موت کا اختیار صرف اپنوں کی بربادی اور دشمن کے لئے آسانیاں اور مزید آسانیاں پید اکرتا ہے یہی ہوا نظریے و شعورکی رہنمائی سے محروم لیاری کے نوجوان کاموت پر اختیار بدنصیب لیاری کے لئے موت ہی ثابت ہوا۔یہ کہاجائے کہ ایسا کیوں ہواتو اِسے سمجھنے کے لئے سقراطی علم کی ضرورت نہیں کیونکہ اس بات کے سبھی معترف ہیں کہ لیاری ماضی میں بلوچ قومی تحریک کا اہم گھڑ رہا ہے ،لیاری نے بڑے بڑے قوم پرست رہنماودانشوروں کے علاوہ شعبہ ہائے زندگی میں بڑے بڑے موسیقار ،سپورٹس مین اور رائٹر پید ا کئے جن کی مجموعی کاوشوں کا ثمر قومی اثاثہ بنتاہے کسی کا انفرادی میراث نہیں اورماضی کی طرح موجودہ تحریک میں بھی لیاری پیچھے نہیں بلکہ پہلے صف میں کھڑا تھاجب چیئرمین غلام محمد نے بلوچ قوم پرستی کے رنگین لیڈروں کے مراعات، مفادات کے منافقانہ سیاست میں دبی قومی جذبے کے راکھ کو پھونک ماری تو پورے مقبوضہ بلوچستان کی طرح لیاری میں چنگاریاں اُٹھنے شروع ہوئے اورلیاری کے گلیاروں میں بلوچ آزادی کے فکر و فلسفہ ایک آب و تاب کے ساتھ چہل قدمی کرنے لگا اورجوکسی بھی وقت لپکتی شعلوں میں بدل سکتے تھے مختلف واقعات میں اس کے نظارہ بھی ہم نے دیکھا نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت پر سب سے بڑے اور منظم مظاہرے لیاری سے نکلے ۔۔۔شہید بالاچ خان مری کے شہادت پر بھی ایسے مناظر سامنے آئے اور چیئرمین غلام محمد کے شہادت پر لیاری نے بھرپور انداز میں وہ سب کچھ کیا جس کا توقع کیاجاسکتا تھااوریہ مناظر قابض کے لئے کتنی جانکاہ تھے ، قابض کے گمان میں بھی نہ تھا کہ لیاری پر مسلط اس کی تباہ کن پالیسیوں کے باوجود لیاری میں اب بھی بلوچیت زندہ ہے ،لیاری اب بھی بلوچستان کا دست و بازو ہے ،لیاری کو تباہ و برباد کرنے کے لئے قابض نے کیا کیا غضب نہیں ڈھائے تھے ۔اس امر سے ہم سب واقف ہیں کہ کراچی پاکستانی معیشت کا شہہ رگ ہے اور اس شہہ رگ کو مضبوط و محفوظ کرنے کے لئے پاکستان نے حفظ ما تقدم کے طورپر ہمیشہ سے یہاں مختلف جرائم کی نشوونما میں بنیادی کردار اداکیا ہے اسے ریاستی سرپرستی میں خوب توانا بنا کر بلوچ کے لئے اس کے وطن کو اس طرح عذاب بنادیا کہ وہاں جیا جائے نہ مرا۔۔۔ پاکستان خوب جانتا ہے کہ یہاں قوم پرستی کا لہراسی طرح اٹھتے رہے اور لیاری کا بلوچ تنظیمی شکل میں منظم ہوئے تو کراچی محض چند ہی گھنٹوں میں جام ہوجائے گا اور پاکستان کے معاشی ،سیاسی ،سفارتی پاؤں لڑکھڑاجائیں گے مگر پاکستان نے اس کا مناسب انتظام کیا اور اہل لیاری کو اہل لیاری سے ختم کرنے کا باقاعدہ پروگرام بنالیا پھرہم نے دیکھا کہ چند ہی مہینوں میں گینگوں نے وہ قوت حاصل کی کہ بلوچ قوم پرستی شجر ممنوعہ بن گیا۔ماضی میں جہاں سے بڑے بڑے جلوس نکلتے تھے گویا قحط الرجال پڑگیاحالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ ایک رات لیاری میں ٹھہرنا اپنی موت کو آواز دینے کے مترادف تھا، مجھے ایک بار واسطہ پڑا اورنشئے میں دُھت بلوچ نوجوانوں کے ہاتھوں خو د کو لٹتے دیکھ کرمیں ایسی کرب سے دوچار ہوا کہ مہینوں تک اس کرب سے نکل نہیں پایا۔ میں نے ایسے مظاہرے لیا ری میں بہت سے صورتوں میں دیکھا جب بھی لیاری جاتا تو رہائش لیاری کے اس علاقے میں ہوتا جہاں ارشدپپوکے گروپ سے تعلق رکھنے والے غفار نامی ڈکیٹ کاراج تھا جو غفار ذکری کے نام مشہور ہوا۔ ان کے گینگ نوجوانوں پر مشتمل تھا جسے ایم کیوایم اور نبیل گبول بھی استعمال کرتے تھے یہ جدید ہتھیاروں سے لیس تھے ،ان کا مقابلہ پولیس اور رحمن کے گینگ سے تھا ۔درحقیت پولیس سے مقابلہ مصنوعی مگر مد مقابل گینگ سے اصلی تھا جب کبھی یہ آمنے سامنے ہوتے تو کلری ،چاکیواڑہ ،گل محمد لین ،سنگولین ،ریکسر، کلاکوٹ ،چیل چوک سمیت لیاری مختلف علاقے کی گلیاں میدان جنگ بن جاتے ،ہزاروں راؤنڈ گولیاں فائر ہوتے ،مارٹر ،ایل ایم جی ،ہینڈگرنیڈااوردیگر جدیدترین ہتھیاروغیرہ وغیرہ ۔۔۔ایک بار گلی کے نکڑمیں رحمن ڈکیٹ گینگ کے کچھ لڑکوں نے حملہ کیا توقریب سے غفار نے اپنی ٹیم کے ساتھ مقابلہ شروع کیا تو لگ بھگ ایک گھنٹہ مقابلہ جاری رہا،میں ایک جگہ سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا ،روزانہ کی فائرنگ سے ہم بھی کچھ کچھ دلیر ہوگئے اور نظارہ کرتے تھے ،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ غفار ایک ہاتھ سے کلاشنکوف چلارہا تھا اور دوسرے ہاتھ میں موبائل فون تھا اور رحمن کو براہ راست دعوت مبازرت دے رہا تھا کہ ’’اپنے اصلی باپ کے اولاد ہو تو خود سامنے آجاؤان غریب لڑکوں کو کیوں مرواتے ہو‘‘ یہ الگ بات ہے کہ دونوں گینگ یہی نیک کام کررہے تھے ،رحمن و غفارکئی سال تک آمنے سامنے رہے ،لیاری میں پی پی کاسحردم توڑچکاتھا توزرداری نے ایک نئی چال چلی اور رحمن کو سردار بنا دیا گیا ۔قران کو سامنے لایا گیا دونوں میں جنگ بندی ہوئی ،رحمن میں کچھ کچھ قوم پرستی میں آثار پید اہوائے تو لیاری کے نوجوانوں کے قاتل پولیس آفیسراسلم چوہدری کے ذریعے رحمن کو ٹھکانے لگایا اور عزیر کو سامنے لایا گیا ،سندھی غنڈہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا راج دلاراذوالفقارمرزا کے ذریعے ہتھیاروں کا نیا کھیپ پہنچایا گیا۔منشیات سرعام ہوا ،دعوے سے کہا جاسکتاہے کہ کراچی کے دیگر علاقوں میں چاکلیٹ اتنی کثرت سے نہیں بکتے کہ لیاری میں منشیات بک رہا تھا ،بلکہ بک رہا ہے ،لیاری کے تباہی میں منشیات کے پاکستانی شاہراہ پر کوئی اسپیڈ بریکر نہیں ۔۔۔عزیر نے باقاعدہ لیاری کو اپنی شکنجے میں لینا شروع کیا ،اس پر غفار کا اس سے نہیں بنا ،اس جنگ میں بے تحاشالہوبہا مگر بلوچ کا ،بلوچ نوجوان کا۔۔۔۔ اس جنگ میں عزیر کے پاس باقاعدہ پولیس کے بکتر بند گاڑیاں ہواکرتے تھے ،غفار علاقہ بدر ہوا اور عزیر کا راج ہوا ،اڈے کھمبیوں کی طرح اُگنے لگے ۔۔۔۔عزیر بھی سردار بن گیااورعوامی بھی ۔۔ نئی نویلی سردارکہیں کوئی لینگویج سینٹر افتتاح کرتاتو اس کے ساتھ منشیات کا ایک اڈہ کھلتا،پھر بابا لاڈلا اور عزیر کا نہیں بنا تو میر بزنجوچوک پر بابا لاڈلا پر بم دھماکہ کیا ،بابالاڈلا بچ گیامگرفٹ بال کھیلتے کئی نوخیز بلوچ نوجوان زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔۔۔۔2013کے الیکشن کے بعد کراچی آپریشن کے نام پر رینجر ز لیاری کا سب سے بڑا گینگ بن بیٹھا،دھندے وہی ،کرتوت وہی ،منشیات کے اڈے وہی آب و تاب ،چوری چکاری بھی وہی ۔۔۔۔۔۔۔۔مگر بات ان کی بہادری اور موت پر اختیار کی ہے انہوں نے جلتے لیاری کو دوزخ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،جب اِن گینگوں کا موجودہ صورتوں میں ضرورت باقی نہیں رہا تولیاری میں بظاہر ایک آپریشن شروع ہوا تو آٹھ دن تک بکتر بند اور جدید ہتھیاروں سے لیس پولیس کو ان’بہادروں ‘ نے آگے بڑھنے نہیں دیا اور مقابلہ کرتے رہے ،پھر رینجراور ایجنسیوں نے ان گینگوں کو اندر سے توڑنے کا سلسلہ شروع کیا اور بلآخر اپنی رٹ قائم کی مگرحیرانگی کی بات یہ ہے کہ آج تک رینجر کا آپریشن جاری ہے اورلیاری میں بلوچ قوم پرستانہ سیاست کونوں کدروں میں دبک گیاہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آج کا لیاری اپنی شکست کا آواز ہے۔ اس میں تحریک کا احیاء ناممکن امربن چکاہے ،کیا لیاری میں قوم پرستی کے بیج پاکستانی بادِ صرصر نے ہمیشہ کے لئے معدوم کئے ہیں ،لیکن فطرت کے اصولوں میں ایسا تونہیں ہے طویل سے طویل قحط سالی بھی پودوں کے بیج معدوم نہیں کرسکتا بس ذرا سی بارش کی دیرہوتی ہے یہ ایک بار پھر اُگتے ہیں اور زمین گل و گلزار بن جاتا ہے اور قوم پرستی کا بیج ایسا سخت جان ہے کہ پوری قوم مٹادی جائے فقط ایک فرد بھی باقی رہے تو اس میں یہ جذبہ کسی نہ کسی صورت میں زندہ رہتاہے اور موافق ماحول ملنے پر کسی نہ کسی اپنی شکل میں اظہار کرتا ہی ہے ۔لیاری میں اب بھی بہت کچھ باقی ہے کہ بلوچ باقی ہے ،بلوچ کا درد باقی ہے ،بلوچ کا اَنا باقی ہے اور بلوچ اب بھی بلوچ ہے ،کہیں ضم نہیں ہوا ہے ،تشخص ابھی باقی ہے ،سیکولر مزاجی باقی ہے ملائیت سمیت بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جواب بھی لیاری میں سراعت نہیں کرسکے ہیں۔
لیاری کی بیگانگی اور اس مقام تک پہنچنے میں کس نے کیا کردار اداکیاہے ،وقت نے بہت کچھ بتادیاہے اور بہت کچھ بتانا شاید باقی ہومگر ایک بات تو اپنی جگہ ناقابلِ تردید ہے کہ پاکستانی نوآباد یاتی پیش بندی اپنی جگہ مگر نام نہادبلوچ لیڈر شپ نے بھی کچھ کم احسان نہیں کئے، روایتی لیڈرشپ نے لیاری کا قوم پرستی کے نام پر بے تحاشااستحصال کیا مگر خود قوم پرستی کا قبر کھودنے میں مصرو ف رہے اورقومی سوال ،قومی آزادی سے انحراف تو اس وقت تکمیل کو پہنچ گیا کہ بلوچستان کے آزاد ی کے لئے خون کے بجائے ووٹ نعرہ بن گیا اُس وقت یہ لیڈرشپ آزادی کے نعرے کے آڑمیں شہرت کی بلندیوں پرتھا اوران کا ایمان تھا کہ بلوچ ان کے انحراف کو قبول کرکے ماضی کی طرح مستقبل میں بھی مبتدی کی مبتدی ہی رہے گااور کوئی اجتہاد نہیں ہوگابلکہ اُن کی امامت چلتی ہی جائے گی اور یہاں دلچسپ امرہے کہ لیاری اِن بازیگروں کا انتخابی حلقہ بھی نہیں تھاتومزید جتن کیونکر کیاجائے۔۔۔ لہٰذا لیاری سے محض نمائشی رشتہ برقرار رکھ کر اسے کھڈے لائن لگا دیااوربلوچستان میں منافقت کی امامت کراتے کراتے جب تحریک کی اُُبھار نے ان کی اصلی قبلہ کا پہچان کرایا تو اس وقت پاکستان نے لیاری میں مناسب بندوبست کرہی دیاتھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لیاری کی قربانیاں ضائع گئیں مگر حقیقت یہ ہے کہ لیاری نے قوم پرستی کے لئے جو قربانیاں دی ہیں وہ تونمائشی نہیں ہیں جس طرح نیشنلزم ایک فطری جذبہ ہے اسی فطری جذبے کے زیر اثر لیاری نے انمول قربانیاں دی ہیں اور۔۔۔اور لیاری نے قوم پرستی کے لبادھے میں مراعات کا جوا نہیں کھیلا تھا ،قوم پرستی کے حقیقی روح کے مطابق اس کے احیاء کے لئے اپنا سب کچھ لٹایا تھا ۔لیاری بلوچستان کی کٹھ پتلی اسمبلی کا امیدوار نہیں تھا ۔۔۔لیاری مراعات کے دریا میں تیرنے کا متمنی نہیں تھا ۔۔۔لیاری سردار کی سایہ عاطفت میں مدمقابل خاندان سے حساب کھرا کرنے کے چکر میں نہیں تھا ۔۔۔لیاری وزیر کے پچیس اعلیٰ گاڑیوں میں پانچ کا طلب گار نہیں تھا کیونکہ لیاری نے منافقت نہیں عبادت کی تھی ،اس کے جذبات بالکل اسی طرح پاک تھے جیساکسی شہیدکاروح ۔۔۔لیکن وہ فکر و فلسفہ ہی کہیں گم گیاجولیاری کے سیاسی ،سماجی اورعلمی ریاضت کا حاصل تھا۔۔۔لیاری پوری تاریخ میں اپنی جذبوں کا اظہار ،کیاخوب صورت شکلوں میں کرتارہاکہ تصورہی مشکل ہے ذرادیکھئے تواُستاد ستار راگ میگھ ملیہار گاتا رہا کہ آجوئی کا مینہ برسے گا مگر وہ دیپک ثابت ہوئے اور اس میں استاد اور لیاری کے ارمان ہی جل اُٹھے ۔۔۔لیجنڈری بلاول بیلجیم زندگی بھر بینجو کے تاروں سے بلوچ بالیدگی کے سربکھیرتا رہا مگر وہ رشتہ ہی بکھر گیاجوسچے سُروں کاحاصل تھا ۔۔۔لیاری کاپختہ شعور آزادی کے پنوں کے پیچھے بھنبور کے بیانوں میں سسی پنوں پنوں پکارتا رہا مگر بلوچ قوم پرستی کے عاری جام پنوں کو ایسے غائب کرگئے جیسا آج کا آئی ایس آئی بلوچ نوجوانوں کو اپنی بلیک ہول میں غائب کرتا ہے۔۔۔۔محمد بیگ بیگل درد اور بے بسی کے لہو رستے اپنی زخموں کو اپنی ہی طنزکے نشتر سے کریدتا رہا مگرزخم پھوڑے بنتے رہے ۔۔۔بڈھا بابو گورگیج گولیوں کی گڑگڑاہٹ میں اخباری کالم کے جام میں اپنی حوادث زندگی کے تجربوں اورشعورکو نچوڑکر خود لاٹھی ٹیکتا اخبار کے دفتر پہنچاتا رہااور۔۔۔اور بابولاٹھی ٹیکتا ہوا جب عدم کے سفر پر نکل گیا تو بار بار پیچھے مڑکر دیکھتا رہا کہ کسی نے ان کا قلم اٹھا یا یا یوں ہی پڑی ہے ۔۔۔جاڑوک ،فیضوک ،عبدالعزیز،قادوک ،قاسم امین ،امام بخش مجنوں کی آواز لیاری کے گلیاروں میں پریشان روحوں کو مزید ستارہے ہیں ۔۔۔ متاع زندگی بس ایک بینجو سینے سے لگا کرعبدالرحمن ناروے اس لئے سدھار گیا اس کے بینجو کے تار کوئی دن کلاشنکوف کی گولیوں سے مرگ کا راگ نہ چھیڑیں۔۔۔بلوچ قومی تحریک کے ماتھے کاجھومراور لیاری کا صبا ء پوری بلوچ وطن میں دشتیارسے لے کرشال تک بادِصبا بن کرمنجمد روحوں کو بیدار یاں بانٹتا رہا ،مگر لیاری کے مرجھا گئے پھولوں پر اَبرباراں نہ برس سکا ۔۔۔غنیم کی تمام طاقت و جبروت کوخاطر لائے بغیر حاجی رزاق فقیری لبادھے میں بھی غنی تھا۔زندگی بھرعلم وشعورکا عمارت تعمیر کرتارہامگر نقب زن اپنے کام میں مشغول رہے اور رکھوالے کہاں گم ہیں کم ہی دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔ ٹیلنٹ کاخزانہ لیاری کے انڈرفورٹین نے برازیل میں سیمی فائنل تک پہنچ گئے ،مگر لیاری میں گلیوں میں ماں باپ ان کا کھیل نہیں دیکھ سکے کہ ان کے سامنے تو بچے اندھی گولی کا نشانہ نہ بن جائے۔۔۔ فٹبال کے بے تاج بادشاہ استاد محمود،استاد عمر ،قادر پتلا ،قاسم حیدری بلوچ،اقبال کے پی ٹی ،رشید کے ایم سی ،علی نواز پی آئی اے جب بال کو کک لگاتے تو شاید من میں یہ سوچ کر خوشی سے نہال ہوتے کہ ان کے بچے ان کے طرح مجبورنہیں گے وہ پاکستانی ڈپاٹوں میں چند روپوں کے بجائے آزاد بلوچستان کے اداروں گوادر پورٹ ٹرسٹ ،بلوچ انٹر نیشنل ائرلائن وغیرہ کی جانب سے کھیلیں گے،مگر،مگر ارمان شاید ہوتے ہی خاک ہونے کے لئے بنتے ہیں اس تمام کے باوجود بہتوں کی طرح میرا ایمان ہے کہ ایک دن لیاری پاکستان کے لئے محشربن جائے گا۔لیاری کی قربانیاں ایسے ضائع نہیں جانے والے کیونکہ لیاری نے انتخابی بٹوارے ،مراعات کے حصول میں نہیں صرف بلوچ ایکتا کے لئے ،بلوچ مرکزی دھارے کے لئے ،ایک بلوچ ایک مرکز اور بلوچ آجوئی کے لئے بڑی اَرمان اور اُمنگوں کے ساتھ قوم پرستی کے لئے جان جوکھم میں ڈال کر خود کو قابض کی نظروں میں ایسا’ مشکوک ‘بنادیا ہے،قابض نے ماضی کے تجربے کو مدنظر رکھ کر اُس انتقام کا سلسلہ شروع کیا ہے کہ آج تک جاری ہے ۔پاکستان لیاری سے بدلہ رہاہے ،بدلہ محبت کا ،بدلہ عصری شعورکا ،بدلہ بلوچ ایکتا کا ،بدلہ بدلہ۔۔۔۔سنا ہے کہیں پڑھا تھا کہ ’’ریاست انتقام لیتے ہیں‘‘مگر لیاری کو دیکھ کر یقین ہوا کہ ریاستیں انتقام لیتے ہیں اورانتقام کے باب میں بلوچستان کا قصہ ہی الگ ہے ۔
لیاری میں اب بھی بلوچ رہتاہے ،جب بالگتر میں کوئی لاش گرتا ہے تو گردش دوراں سے اپنی کولی میں مقید نسکندی کے شاگردوں کا خون ضرور کھول اٹھتا ہے ،جب مشکئے میں چار دلہاؤں کی مہندی ان کے خون میں بہہ گئے تو لیاری نے بے بسی کی زنجیروں کو جھٹکنے کی بہت کوشش کی ،جب ڈاکٹرمنان جان مستونگ میں اپنی معراج کو پہنچ گیا تو لیاری کے زخموں سے درد کے ٹھیس اٹھے ،بلوچستان جل رہا ہے تو اس کا تپش لیاری اپنی دل میں محسوس کررہاہے ،بلوچ ماں کے فلک شگاف آہیں لیاری کے جگر میں پیوست ہورہے ہیں مگرلیاری کے پاؤں میں نوآبادیاتی پیش بندی کی بیڑیاں اور ہاتھوں میں برادر کشی کے لئے زبردستی تھمائے گئے تلوار ہیں ،لیاری بھاگ نہیں سکتا کہ لیاری پابستہ ہے لیاری نے راستہ کھودیا ہے ،پاکستان نے لیاری کو نمونہ عبرت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اورہم نے بھی لیاری کو بیچ منجدھار ہی میں چھوڑدیاہے ؂
چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اس عشق پہ نہ اُس عشق پہ نام ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
لیکن لیاری جانتاہے کہ اس کا پاکستان کے ساتھ واضح تضاد ہے یہ تضاداپنی وجود میں سراسر مخاصمانہ ہے اس کا حل دونوں میں سے ایک کے وجود کو ختم ہونے میں پنہاں ہے ۔لیاری یہ بھی جانتا ہے پاکستان اس تضاد کا حل ان کو مٹانے کی صورت میں کررہاہے ،گینگ وار ہوکرمرے گا لیاری کا نوجوان ۔۔۔استحصال ہوتو لیاری کا ہوگا ۔۔۔منشیات کے اڈے ہوں تو لیاری میں کھلیں گے ۔۔۔غیروں کی آبادکاری ہوتو لیاری سے اس کا زمین چھینا جائے گا۔۔۔یہی ایوب نے کیا ،یہی بھٹونے کیا ،یہی بی بی نے کیا ،یہی زرداری نے کیا ،یہی اصلی بلاول نقلی بھٹو کرے گا،پاکستانی ہئیت مقتدرہ کو افسوس ہوگا کہ انہوں نے بہادرمرتضیٰ اورذہین شاہنوازکو زیادہ موقع نہیں دیا ورنہ وہ بھی لیاری کے نوجوانوں کے جذبوں سے کھیل کر انہیں انقلاب کے نام پر پاکستان کے لئے لقمہ تر بنانے میں اپنا حصہ اداکرتے ۔
اب توپاکستان نے ایم کیوایم کو استعمال کے بعداس کا بھرکس نکال رہا ہے ،اس کے دانت کند کرنے کے لئے لیاری گینگ کی ضرورت نہیں ہے ،لیاری میں قومی تحریک کے گھونسلوں میں چیلوں نے اپنا مسکن بنالیا ہے لہٰذا گینگ کی ضرورت کیا ہے ،پٹھان چائے کی ہوٹل اور ٹرانسپورٹ سے آگے کا مطالبہ نہیں کررہا ہے توگینگ کو لڑائے کس سے ،خواہ مخواہ بھتہ آدھا ہوجائے گا ،شہر کا حسن گہنا جائے گا ،اس کے باوجود پاکستان کو یقین ہے کہ لیاری پر ذرا ہاتھ ڈھیلا پڑگیا تو ہاتھ سے نکل جائے گااس لئے آپریشن جاری ہے ،کسی میں ذراسی بلوچ بننے کا جنون سوار ہوا ،آدھی رات کو رینجر اٹھا ئے گا اور ہفتہ دس دن بعد میوہ شاہ قبرستان سے اس کا دیگر بلوچ نوجوانوں کی طرح کی مسخ لاش مل جائے گا۔پاکستان کو یقین ہے کہ لیاری کبھی دمام دم مست قلندر کرے گا،مختلف حیلہ ،بہانوں اور کثیرالجہتی تباہی کے منصوبوں کے باوجود اسے رام نہیں کیاجارہا ہے لیکن ہزارہا ترکیب سے سرد کرنے کی کوششوں کے باوجود لیاری کا آتش فشاں پھٹ پڑے گا۔اس آتش فشاں کو نہ تو پاکستان کی انسانی اقدارسے محروم درندہ فوج اپنی درندگی سے ۔۔۔۔۔نہ نیشنل پارٹی اپنی غدارانہ فطرت سے ۔۔۔نہ مینگل اختر اپنی چمتکاریوں سے ۔۔۔ نہ واحد بلوچی چینل المعروف ’’وش ‘‘اپنی ’’تلخ‘ ‘کاریوں سے سردکرسکتا ہے یہ نوشتہ دیوار ہے ۔
قومی تحریک کے عصری تقاضااورلیاری کے زخم زخم روح پر مرہم رکھنے کا وقت آن پہنچا ہے اورلیاری کے روح کے لئے تحریک کے احیاء سے زیادہ کوئی موثر مرہم نہیں ہوسکتا ہے اس میں شرط انقلابی حکمت عملی ،تدبر اورمستقل مزاجی ہے اورمیں سمجھتاہوں کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کواس باب میں پہل کرنا ہوگااورشہید صبا دشتیاری ،شہید حاجی رزاق ،شہید اسلم اور شہید شہزادنوشیروان سمیت شہداء کالہواس کام میں ہماراحامی و ناصرہیں۔
***

© 2013 Daily Sangar. All Rights Reserved.
Email: [email protected], [email protected]